بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

معاوضہ دے کر اسائنمنٹ لکھوانا


سوال

 میرے تین بھائی طلبہ کو مقالہ لکھ کر دینے کا  کام کرتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ ہمارا کام “جزوی معاونت،حوالہ جات کی فراہمی یا کمپوزنگ و سیٹنگ میں تعاون کرنا” نہیں ہے بلکہ ہم مکمل مقالہ اس انداز میں لکھ کر دیتے ہیں کہ طلبہ من و عن وہی اپنے تعلیمی ادارے میں جمع کروادیتے ہیں، اسی انداز پر لکھ کر دینے کی ہی ہمیں اجرت ملتی ہے، اگر ہم صرف جزوی معاونت،حوالہ جات کی فراہمی یا کمپوزنگ و سیٹنگ میں تعاون کریں تو ہمیں کسی ایک مقالہ لکھنے کے بھی پیسے نہ ملیں،  یعنی مقالہ لکھوانے اور لکھنے والے دونوں کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ یہ مقالہ لکھوانے کا کام من و عن جمع کروانے ہی کے لیے ہے،  البتہ ہم مقالہ لکھوانے والے طلبہ کو یہ  لکھ کر دیتے ہیں کہ اس مقالہ کو من و عن نہ جمع کروایا جاۓ۔

سوال۔ 1۔ طلبہ کو مقالہ لکھ کر ساتھ یہ جملہ لکھ کر دینے سے کہ “اس مقالہ کو من و عن نہ جمع کروایا جاۓ “ ، کیا میرے بھائیوں کی آمدنی جائز ہے ؟

2۔ میرے بھائیوں کا ذریعہ آمدنی صرف یہی کام ہے۔ میرے لئے ان کے گھر کھانے پینے اور تحائف لینے میں کیا احتیاط درکار ہے ؟

جواب

 کسی بھی تعلیمی ادارے کی جانب سے طالبِ علم(Student) کو دیا گیا وہ کام جس  سے اس طالبِ  علم کی صلاحیت کا امتحان مقصود ہو، اس کی کارکردگی کا تعین ہو  اور اس کی بنیاد پر مستقبل میں اس طالب علم کو سند (Degree) جاری کی جاتی ہو ، ایسا تعلیمی کام طالبِ علم  پر بذاتِ خود سرانجام دینا لازم ہوتا ہے، ورنہ مستقبل میں یہی طالبِ  علم  نا اہلی کے باوجود اس ڈگری کی بنیاد پر وہ سہولیات  حاصل کرے گا جو اصل ڈگری والوں کا حق ہے ، نیز  کسی دوسرے سے مقالہ/اسائنمنٹ (assignment) لکھوا کر اپنی طرف منسوب کرکے اپنے نام سے جمع کرانا٬ قانون کی خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ شرعا جھوٹ اور دھوکہ دہی بھی ہے،  جو جائز نہیں٬ اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے،اگر چہ مقالہ لکھنے  میں جزوی طور پر معاونت لی جاسکتی ہے ۔

لہٰذا سوال میں جو آپ نے صورت ذکر کی ہے  کہ  آپ کے بھائیوں کو یہ علم ہوتا ہے کہ مقالہ لکھوانے والے طلبہ پر ادارے (یونیورسٹی) کی جانب سے خود تحریر کرنا لازم ہوتا ہے ، مگر وہ طلبہ ان کے ذریعے   مکمل مقالہ  لکھوا کر اسے  اپنی طرف منسوب کرکے من و عن  پیش کریں گے،  تو  محض  "اس مقالہ کو من و عن نہ جمع کروایا جائے" لکھ دینے سے ان کا  یہ عمل درست نہیں ہو جاتا ،کیوں کہ کسی غلط کام پر ،یہ  جانتے بوجھتے ہوئے کہ وہ غلط ہے، صرف ایک لیبل لگا دینے سے وہ درست نہیں ہوجاتا،  لہٰذا آپ کے بھائیوں کے لیے ضروری ہے کہ  ایسے لوگوں کا کام کرنے سے اجتناب کریں٬ نیز ایسی صورت میں اس سے حاصل ہونے والی کمائی بھی کراہت سے خالی نہ ہوگی٬ کیونکہ جائز مضمون پر مشتمل تحریر/مقالہ لکھنا اگرچہ گناہ نہیں٬ بلکہ  ایک مباح عمل ہے٬ جس کی اجرت حلال ہے٬ لیکن یہاں دھوکہ دہی اور جھوٹ  کے کام میں جان بوجھ کر معاونت کی وجہ سے اس میں کراہت آجائے گی۔

1،2: مذکورہ تفصیل کی رُو سے آپ کے بھائیوں کی آمدنی  فی نفسہ تو جائز ہے ، لیکن اس میں جھوٹ ، دھوکہ دہی اور خیانت کے عمل میں معاونت کی وجہ سے کراہت پائی جا رہی ہے، اس لیے ان کے گھر کا کھانا پینا  ، اور  تحائف وصول کرنا آپ کے لیے حلال   ہے، لیکن اگر احتیاط کریں  تو بہتر ہے۔

"بدائع الصنائع"میں ہے:

"وعلى هذا يخرج الاستئجار على المعاصي أنه لا يصح لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا كاستئجار الإنسان للعب واللهو، وكاستئجار المغنية، والنائحة للغناء، والنوح بخلاف الاستئجار ‌لكتابة ‌الغناء والنوح أنه جائز؛ لأن الممنوع عنه نفس الغناء، والنوح لا كتابتهما."

(كتاب الإجارة، فصل في أنواع شرائط ركن الإجارة، ج:4، ص:189، ط:دار الكتب العلمية)

"الموسوعة الفقهية الكويتية"میں ہے:

"اتفق الفقهاء على أن الغش حرام سواء أكان بالقول أم بالفعل، وسواء أكان بكتمان العيب في المعقود عليه أو الثمن أم بالكذب والخديعة، وسواء أكان في المعاملات أم في غيرها من المشورة والنصيحة.

وقد ورد في تحريم الغش ما روى أبو هريرة رضي الله تعالى عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام فأدخل يده فيها، فنالت أصابعه بللا، فقال: ما هذا يا صاحب الطعام؟ قال: أصابته السماء يا رسول الله، قال: أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس من غشنا فليس مني. وفي حديث آخر: من غشنا فليس منا.

وقد ذهب جمهور الفقهاء إلى أن هذا الحديث وأمثاله غير محمول على الظاهر، فالغش لا يخرج الغاش عن الإسلام، قال الخطابي: معناه ليس على سيرتنا ومذهبنا ."

(غش، ج:31، ص:219، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407102127

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں