بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موت کی تمنا کرنا


سوال

میں نے بات چیت کے دوران اپنی بیوی سے کہا کہ میں چاہتا ہوں میں مر جاؤں زہر کھا کر ،اس نے پو چھا کیوں؟ تو میں نے کہا اس لیے کے میں اپنے آپ سے تنگ ہوں،کوئی بھی ذمہ داری پوری نہیں کرتا، کوئی مقصد پورا نہیں کرتا ،اس لیے الله مجھے اٹھا لے ،تو بیوی نے کہا تم مایوسی کر رہے ہو ،تو میں نے کہا مایوسی نہیں کی،  درخواست کر رہاہوں الله سے کہ  مجھے اٹھا لے، میں سب تباہ کر رہا ہوں اور تمہیں اور اپنے بچے کو تکلیف دے کر گناہ میں اضافہ کر رہاہوں اس سے بہتر ہے الله مجھے اٹھا لے میری زندگی پر فل اسٹاپ لگا دے ۔

نوٹ : ( بات چیت کے دوران دماغ میں یہ بھی آ رہا تھا کہ نماز میں التجا کر رہاہوں اپنے حالات بدلنے کی، مگر کچھ نہیں بدل رہا اور ہمارا تو امتحان ہے ،الله کیوں کچھ کرےگا ،امتحان میں کچھ بتایا تھوڑی جاتا اور یہ بھی سوچ رہا تھا گناہ والی بات کہتے وقت بیوی بچے کو تکلیف دے کر اتنے گناہ  کر رہاہوں  کہ حساب سخت ہوگا، کس منہ سے کھڑا ہوں گا الله کے سامنے ؟معاف نہیں کرےگا الله، کیوں کہ حقوق العباد ہیں. پر اس سب کو دماغ میں رہنے دیا کہ یہ کفر نا ہو زبان پر نا آۓ )۔

اب  مجھے یہ جاننا ہےکہ  میں نے جو زبانی کہا مایوس ہو کر میں کافر ہوگیا کیا؟ کیا مجھے کلمہ اور نکاح دوبارہ کرنا ہوگا ؟اور اسی طرح جو دماغ میں سوچا اس پر کیا حکم ہے ؟ مہربانی ہوگی اگر تفصیل سے آگاہ کردیں۔

قرآن میں جو مایوس نہ ہونے کا حکم ہے،اس پر  آج کے دور میں کیسے عمل کیا جائے؟ کن اقوال وافعال پر مایوسی کا حکم لاگو ہوتاہے،اور کن پر لاگو نہیں ہوتا؟میں نے انٹرنیٹ پر تقریباً جتنے اہل علم کو سنا اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ  آج کے دور میں تو تقریباً سارے مسلمان مایوسی کا شکار  ہیں ،انسانون  سے بھی ، بلکہ صریح یا کنایہ طورپر  الله سے بھی مایوسی کا اظہار کررہے ہیں،  جب کہ نیت میں یہ بات نہ ہو کہ (معاذاللہ) اللہ تعالی دے نہیں سکتا ،بلکہ خیال یہ ہوتا ہے کہ ہمارے گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالی دینا نہیں چاہتا ،تو ایسی صورتِ حال میں کیا سب کافر ہوجائیں گے ،؟سب کو دوبارہ   ایمان اور نکاح کی ضرورت ہے کیا؟

جواب

احادیث میں بلا ضرورت موت کی تمنا کرنے کی یا دنیاوی مصائب سے گھبرا کر موت کی آرزو کرنے کی ممانعت آئی ہے۔ عمر کا زیادہ ہونا اور توبہ اور اعمال صالحہ کے لیے وقت کا میسر آجانا ایک نعمتِ عظمیٰ اور غنیمتِ کبریٰ ہے، البتہ اگر قلب پر لقاءِ خداوندی کا شوق غالب ہو تو پھر موت کی تمنا جائز ہے، مگر شرط یہ ہے کہ فرطِ شوق سے اس درجہ مغلوب الحال ہوجائے کہ دنیاوی منافع اس کی نظروں سے اوجھل ہوجائیں اور غلبۂ شوق میں اس کو اس کا بھی خیال نہ رہے کہ جس قدر عمر زیادہ ہوگی اسی قدر قربِ خداوندی کے اسباب زیادہ حاصل کرسکوں گا اور حضراتِ صحابہ سے جو اس قسم کی آرزو منقول ہے سو وہ اس وقت میں تھی کہ جب اسباب موت کے سامنے آگئے اور دنیا کی زندگی سے مایوسی ہوگئی اس وقت موت کی فرحت اور مسرت میں کچھ کلمات زبان سے نکلے اور یہ وقت محلِ بحث سے خارج ہے۔ تفصیل کے لیے تفسیر عزیزی اور تفسیر مظہری کی مراجعت کی جائے۔ (معارف القرآن 1/241)

خلاصہ یہ ہے کہ دنیاوی مصائب کی وجہ سے موت کی تمنا جائز نہیں اور مذکورہ الفاظ'میں چاہتا ہوں میں مر جاؤں زہر کھا کر 'ان الفاظ سے سائل ایمان سے خارج نہیں ہوا، بلکہ سائل کا ایمان اور نکاح  برقرار ہے، اور جو  کچھ سوچا دماغ میں  یہ خوفِ خدا ہونے کی علامت ہے ،اس سے ایمان پر اثر نہیں پڑتا۔

مایوسی کی تعریف:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت اور اس کےفضل واحسان سے خود کومحروم سمجھنا ’’مایوسی ‘‘ہے۔

آیت مبارکہ:

٭ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۵۳))(پ۲۴، الزمر: ۵۳) 

ترجمۂ: ’’تم فرماؤ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

٭ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:

 (قَالَ وَ مَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهٖۤ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ(۵۶))(پ۱۴، الحجر۵۶)

 ترجمۂ: اپنے ربّ کی رحمت سے کون ناامید ہو مگر وہی جو گمراہ ہوئے۔

حدیث مبارک:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا :’’کبیرہ گناہ کون سے ہیں ؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہتعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، اس کی رحمت سے مایوس ہونا اور اس کی خفیہ تدبیر سے بے خوف رہنا اور یہی سب سے بڑا گناہ ہے۔‘‘

مایوسی کاحکم:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہو کر گناہوں میں مشغول ہوجانا ناجائز وحرام اور کبیرہ گناہ ہے، رحمت الٰہی سے مایوسی بعض صورتوں میں کفر بھی ہے۔ 

مایوسی کے  چار اسباب و علاج:

(1)… مایوسی کا پہلا سبب جہالت ہے کہ بندہ اپنی جہالت اور کم علمی کے سبب رحمت الٰہی سے مایوسی جیسے موذی گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ دنیوی علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم بھی حاصل کرے، قرآن وحدیث کا علم حاصل کرے،جہنم میں لے جانے والے اعمال اوران پر ملنے والے عذاب پر غور وفکر کرے تاکہ اس کے دل میں خوف آخرت پیدا ہو، جنت میں لے جانے والے اعمال اور ان پر ملنے والے عظیم اجروثواب پر نظر رکھے تاکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت کاملہ پر اس کا یقین مزید پختہ ہوجائے اور مایوسی اس سے دور بھاگ جائے۔

(2)…مایوسی کا دوسرا سبب بے صبری ہے۔ کسی آزمائش یا مصیبت پر بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے واویلا کرنے سے رحمت الٰہی سے مایوسی پیدا ہوتی ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ مصیبتوں پر صبر کرنے کی عادت ڈالے کیوں بے صبر ی کی وجہ سےنکلنے والے کلمات بسا اوقات ’’کفریات‘‘پر مشتمل ہوتے ہیں جو ایمان کو برباد کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ کسی بھی تکلیف یا مصیبت پر بندہ یہ ذہن بنائے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مجھے اس آزمائش میں مبتلا کیا ہے تو میں اس پر بے صبری کا مظاہرہ کرکے اجر وثواب کیوں ضائع کروں ؟ بلکہ میں اس کی رحمت کاملہ پر نظر رکھوں اور اس مصیبت یا پریشانی سے نجات کے لیے اس کی بارگاہ میں التجا کروں۔

(3)… مایوسی کا تیسرا سبب دوسروں کی پر آسائش زندگی پر نظر رکھنا ہے۔جب بندہ کسی کو پرآسائش زندگی پر غور وفکر کرتا ہے تو اسے اپنی زندگی پر سخت تشویش ہوتی ہےیوں بندہ رحمت الٰہی سے مایوس ہوجاتا ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ دوسروں پر نظر رکھنے کے بجائے اپنی زندگی پر غور وفکر کرے ، ربّ عَزَّ وَجَلَّ کا شکر ادا کرتے ہوئے قناعت اختیار کرے،یہ ذہن بنائے کہ جس ربّ عَزَّ وَجَلَّ نے اسے پرآسائش زندگی عطا فرمائی ہے یقیناً وہ مجھے ویسی ہی زندگی عطا کرنے پر قادر ہے لیکن یہ اس کی مشیت ہے اور میں اس کی مشیت پر راضی ہوں۔ نیز بندہ اس بات پر بھی غور کرے کہ جو شخص دنیا میں جتنی بھی پرآسائش زندگی بسر کرے گا ہوسکتا ہے کل بروز قیامت اسے اتنا ہی سخت حساب وکتاب دینا پڑے، لہٰذا پرآسائش زندگی کی خواہش کرنے کے بجائے سادہ طرز زندگی اپنانے ہی میں عافیت ہے۔

(4)… مایوسی کا چوتھا سبب بری صحبت ہے۔جب بندہ ایسے دنیا دار لوگوں کی صحبت اختیار کرتا ہے جو خود مایوسی کا شکار ہوتے ہیں تو ان کی صحبت کی وجہ سے یہ بھی مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ سب سے پہلے ایسے لوگوں کی صحبت ترک کرکے نیک پرہیزگار اور متقی لوگوں کی صحبت اختیار کرے، اللہ والوں کے پاس بیٹھے تاکہ مایوسی کے سیاہ بادل چھٹ جائیں اور رحمت الٰہی پر یقین کی بارش نازل ہو۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100597

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں