بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی اور سے مشت زنی کرانے کا حکم


سوال

کسی اور سے مشت زنی کروائی ہو ،خود نہیں کی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

مشت زنی کرناناجائز اور گناہ کاکام  ہے ،قرآن اور   احادیث میں اس فعل ِبد پر وعیدیں وارد ہوئی ہے،اور اس فعل کےمرتکب پر لعنت کی گئی ہے،اور ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:سات لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالی قیامت کے دن نہ گفتگو فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف نظرِکرم فرمائیں گے۔۔۔ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو    اپنےہاتھ سے نکاح کرتا ہے(یعنی مشت زنی کرتا ہے) ، کسی اور سے مشت زنی کروانا اس سے بڑکر گناہ ہے۔

 تاہم  اپنی بیوی حیض کے ایام میں شوہر کی تسکین کے لیے  اگر کوئی تدبیر کرتی ہے تو اس کی گنجائش ہے۔ بلاضرورت اس سے اجتناب کیا جائے۔

قرآن کریم میں ہے:

{وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ} ( سورۃ المومنون  ، آیت ، ۵ تا ۸)

ترجمہ:اور جو اپنی شرمگاہوں کی (حرام شہوت  رانی سے)حفاظت رکھنے والے ہیں، لیکن اپنی بیبیوں سے یا اپنی (شرعی )لونڈیوں سے (حفاظت نہیں کرتے ہیں)،کیوں کہ ان پر(اس میں )کوئی الزام نہیں ہاں جو اس کے علاوہ (اور جگہ شہوت رانی)طلب گار ہو ایسے لوگ حد(شرعی)سےنکلنے والے  ہیں ۔(بیان القرآن)

تفسیر معارف القرآن میں حضرت مولانامفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

  "{فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَاۗءَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ، یعنی منکوحہ بیوی یا شرعی قاعدہ سے حاصل شدہ لونڈی کے ساتھ شرعی قاعدے کے مطابق قضاءِ شہوت کے علاوہ اور کوئی بھی صورت شہوت پورا کرنے کی حلال نہیں، اس میں زنا بھی داخل ہے اور جو عورت شرعاً اس پر حرام ہے اس سے نکاح بھی حکمِ زنا ہے، اور اپنی بیوی یا لونڈی سے حیض و نفاس کی حالت میں یا غیر فطری طور پر جماع کرنا بھی اس میں داخل ہے ، یعنی کسی مرد یا لڑکے سے یا کسی جانور سے شہوت پوری کرنا بھی ، اور جمہور کے نزدیک استمنا بالید یعنی اپنے ہاتھ سے منی خارج کرلینا بھی اس میں داخل ہے‘‘۔

(سورۃ المؤمنون ،498/6،ط، معارف القرآن)

شعب الایمان میں ہے:

’’عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " سبعة لاينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولايزكيهم، ولايجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: الناكح يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره". " تفرد به هكذا مسلمة بن جعفر هذا ". قال البخاري في التاريخ".

(تحریم الفروج ومایجب عن التعفف عنھا ،378/4،رقم،5470،ط،دار الکتب العلمیۃ)

"ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :ساتھ آدمی ایسے ہیں جن کی طرف اللہ تعالی قیامت والے دن نہ نظرِرحمت فرمائیں گے اور نہ ان کو عذاب سے پاک کریں گے اور نہ ان کو اور لوگوں کے ساتھ جمع کریں گے اورجہنم میں پہلے داخل ہونے والوں کے ساتھ ان کو جہنم میں داخل کریں گے،مگر یہ کہ وہ توبہ کرے،مگر یہ وہ کہ توبہ کرے ،مگر یہ کہ وہ توبہ کرے،لہذا جو شخص توبہ کرے تو اللہ تعالی اس کے توبہ کو قبول فرماتے ہے،ایک وہ شخص جو اپنے ہاتھ سے نکاح کرےیعنی مشت زنی کرنے والا،ااور فاعل اور مفعول بہ یعنی (زناکرنے والا ااور جس کے ساتھ زناکیا جاتاہے )،اور شراب پینے والا ،اور اپنے والدین کو مارنے والا حتی کہ وہ مدد طلب کرے ،اور اپنے پڑوسی کو تکلیف دینے والایہاں تک کہ وہ تکلیف دینے والے پر لعنت کریں،اور اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنے والا۔"

فتاوی شامی میں ہے:

"ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه فلا ينافي قول المعراج يجوز تأمل وفي السراج إن أراد بذلك تسكين الشهوة المفرطة الشاغلة للقلب وكان عزباً لا زوجة له ولا أمة أو كان إلا أنه لايقدر على الوصول إليها لعذر قال أبو الليث: أرجو أن لا وبال عليه وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة فهو آثم اهـ.
بقي هنا شيء وهو أن علة الإثم هل هي كون ذلك استمتاعاً بالجزء كما يفيده الحديث وتقييدهم كونه بالكف ويلحق به ما لو أدخل ذكره بين فخذيه مثلاً حتى أمنى، أم هي سفح الماء وتهييج الشهوة في غير محلها بغير عذر كما يفيده قوله: وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة إلخ؟ لم أر من صرح بشيء من ذلك والظاهر الأخير؛ لأن فعله بيد زوجته ونحوها فيه سفح الماء لكن بالاستمتاع بجزء مباح كما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين بخلاف ما إذا كان بكفه ونحوه وعلى هذا فلو أدخل ذكره في حائط أو نحوه حتى أمنى أو استمنى بكفه بحائل يمنع الحرارة يأثم أيضاً ويدل أيضاً على ما قلنا ما في الزيلعي حيث استدل على عدم حله بالكف بقوله تعالى: {والذين هم لفروجهم حافظون} الآية وقال فلم يبح الاستمتاع إلا بهما أي بالزوجة والأمة اهـ فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشهوة بغيرهما هذا ما ظهر لي والله سبحانه أعلم."

(کتاب الصوم،باب مایفسد الصوم ومالایفسدہ،399/2،ط،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509102227

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں