بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

معلق طلاق میں شرط پائی جانے کی صورت میں طلاق کا حکم


سوال

 ایک آدمی نے اپنی بیوی کو میسج کیا کہ اگر کل تک آپ میرے گھر نہ گئی تو آپ کو تین طلاق ہیں، لیکن نیٹ ورک کی وجہ سے دوسرے دن میسج پہنچا تو جیسے اس کی بیوی نے میسج پڑھاتو فوراً شوہر کے گھر چلی گئی ۔ شوہر  کہہ رہا ہے کہ میں نے  میسج کل کیا تھا وہ کہہ رہی ہے ابھی پہنچا ہے میرے پاس ۔ کیا طلاق ہوجائے گی ؟ آدمی بہت پریشان بیٹھا ہوا ہے ۔ جلدی رہنمائی فرمائیں ۔

جواب

واضح رہے کہ شوہر  بیوی کو طلاق کسی شرط کے ساتھ معلق کر کے دے  تو  شرط پائی جانے کی صورت میں بیوی پر طلاق واقع  ہو جائے گی،   بیو ی کو تعلیق کا علم ہونا ضروری نہیں ہے ۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں  شوہر نے جس دن  بیوی کو یہ میسج کیا کہ"  اگر آپ کل تک میرے گھر نہ گئی تو تجھے تین طلاق"    پھر اگر بیوی کل  تک شوہر کے گھر نہیں گئی  تو اس صورت میں تین طلاقیں واقع ہو گئیں    اور   بیوی  شوہر  پر حرمت مغلظہ  کے ساتھ  حرام ہوچکی ہے،  رجوع کی گنجا  ئش باقی نہیں ہے، چاہے بیوی کے پاس میسج دیر سے پہنچا ہو،   اس لیے کہ بیوی کو طلاق کا علم ہونا ضروری نہیں ہے، ہاں شوہر یہ قید لگا تا کہ جب میرا یہ میسج پہنچے اس کے بعد تم میرے گھر نہیں  آئی تو  تمہیں طلاق تو اس صورت میں میسج پہنچےکے بعد  بیوی نہیں جاتی تو طلاق ہوتی، لیکن اس شرط کے بغیر ہی شوہر نے میسج کیا تو اس صورت میں بیوی پرتين  طلاقيں ہو چکی ہيں،بیوی اپنی عدت (پوری تین ماہواریا ں  اگر حمل نہ ہو ،اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار   کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے،   باقی عدت کے بعداگر کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اور اس سے صحبت (جسمانی تعلق) قائم ہو جائے، اس کے بعد   اگر دوسرا شوہر  طلاق دے دے یا    اس کا انتقال ہوجائے پھر اس کی عدت گزار کر دوبارہ پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔  

بخاری شریف میں ہے:

"عن عائشة رضي الله عنها، أن رجلا طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال:لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول."

(كتاب الطلاق،باب من أجاز طلاق الثلاث، 2/781ط:قديمي).

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإن كانت ‌مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو أما إن أرسل الطلاق بأن كتب أما بعد فأنت طالق فكلما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة.وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب إذا جاءك كتابي هذا فأنت طالق فما لم يجئ إليها الكتاب لا يقع كذا في فتاوى قاضي خان."

(ج:3، ص:378،الفصل السادس في الطلاق بالكتابة،ط،دار الفكر)

بدائع الصنائع میں ہے :

"وكذا تنقضي بدون العلم به ولو كان ركنا لما تصور الانقضاء بدونه، وبدون العلم به. وعلى هذا يبنى وقت وجوب العدة أنها تجب من وقت وجود سبب الوجوب من الطلاق، والوفاة، وغير ذلك حتى لو بلغ المرأة طلاق زوجها أو موته فعليها العدة من يوم طلق أو مات عند عامة العلماء، وعامة الصحابة - رضي الله عنهم -، وحكي عن علي - رضي الله عنه - أنه قال: من يوم يأتيها الخبر وجه البناء على هذا الأصل أن الفعل لما كان ركنا عنده فإيجاب الفعل على من لا علم له به ولا سبب إلى الوصول إلى العلم به ممتنع، فلا يمكن إيجابه إلا من وقت بلوغ الخبر؛؛ لأنه وقت حصول العلم به ولما كان الركن هو الأجل عندنا، وهو مضي الزمان لا يقف وجوبه على العلم به كمضي سائر الأزمنة ثم قد بينا أنه لا يقف على فعلها أصلا، وهو الكف فإنها لو علمت فلم."

(ج:3، ص:190،فصل فی توابع الطلاق،ط:دار الكتب العلمية)

الد المختار میں ہے :

"(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (‌الشرط ‌مطلقا) لكن إن وجد في الملك طلقت وعتق وإلا لا."

(کتاب الطلاق، باب التعلیق، ج:3، ص:355، ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"قلتقال ابن الشحنة والأصل أنه متى عجز عن شرط الحنث حنث في العدمي لا الوجودي.

وفی الرد:قوله لا يحنث في المختار) لأنه مسكن لا ساكن، وشرط الحنث هو السكنى، وإنما تكون السكنى بفعله إذا كان باختياره، بخلاف إن لم أخرج ونحوه لأن شرط الحنث عدم الفعل والعدم يتحقق بدون الاختيار أفاده في الذخيرة وأفاده أيضا أن الخلاف فيما إذا أغلق الباب لا فيما إذا منع بقيد، ومثله في البحر وصرح به في البزازية. وحاصله أنه لو كان المنع حسيا لا يحنث بلا خلاف ولو كان بغيره لا يحنث أيضا في المختار، وقيل لا يحنث.

مطلب الأصل أن شرط الحنث إن كان عدميا وعجز يحنث.

(قوله والأصل إلخ) عبارة ابن الشحنة والأصل أن شرط الحنث إن كان عدميا وعجز عن مباشرته فالمختار الحنث، وإن كان وجوديا وعجز فالمختار عدم الحنث. اهـ

(کتاب الطلاق، ، ج:3، ص:382، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

    "إذا أضاف الطلاق إلى النكاح وقع عقيب النكاح نحو أن يقول لامرأة: إن تزوجتك فأنت طالق أو كل امرأة أتزوجها فهي طالق."

( كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط ونحوه، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما،ج:1،ص:420، ط: رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100174

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں