بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مؤکل کے تصرف سے پہلے وکیل کا انتقال ، وکالت کا حکم، سسر کے مرنے کے بعد بہوؤکا دعوی


سوال

ہم کل گیارہ بھائی بہن تھے (پانچ بھائی اور چھ بہنیں)جن میں سے ایک بہن غیرشادی شدہ تھی ، جب کہ باقی سب شادی شدہ ہیں ، یہ کنواری بہن والد صاحب کے ساتھ رہتی تھی ، والد صاحب کی وفات کے بعد بہت سی چیزیں اس بہن کے پاس تھیں ، والدصاحب کی ملکیت میں سونا بھی تھا ، اسی طرح اس بہن کے پا س اپنا کچھ سونا بھی تھا، اس بہن نے اپنا اور والد صاحب کا کچھ سونا ملا کر ایک زیور بنوالیا اور والد صاحب کا کچھ سونا اسی شکل میں موجود ہے ۔

اب معاملہ یہ ہے کہ اس بہن نے صحت کی حالت میں تمام سونا (اپنا اور والدصاحب کا )ایک بھائی کو یہ کہہ کر دیا کہ اس میں میرا حصہ اتنا ہے اور والد کا اتنا، جو میراحصہ ہے اسے کسی مسجد یا مدرسہ میں لگالیں ۔ اب ہوا کہ یہ اس بھائی نے کسی جگہ خرچ نہیں کیا کہ اس بہن کا انتقال ہوگیا، پھر اس بھائی کا بھی انتقال ہوگیا ، برائے مہربانی یہ راہ نمائی فرمادیں کہ اس کُل سونے کا کیا کیا جائے؟

واضح رہے کہ بھائی بہنوں میں سب سے پہلے ایک بہن کا انتقال ہوا،جو کہ غیر شادی شدہ تھی،اور اب ہم دو بھائی اور ایک بہن حیا ت ہیں ،باقی سب کا انتقال ہوچکا ہے، جب کہ والد ہ کا انتقال والد کی حیات ہی میں ہوگیا تھا ۔ 

نیز والد صاحب والے سونے کے بارے میں دو بہوؤں کا یہ کہنا ہےکہ والد صاحب نے یعنی ان کے سسر نے یہ سونا ہمیں دینے کا کہا تھا ۔

وضاحت: والد صاحب کا ترکہ تقسیم ہوچکا ہے،  صرف بہن کے سونے سے متعلق سوال ہے ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی بہن نے حالتِ صحت میں اپنے بھائی کو زیورات دیتے وقت یہ کہا تھا کہ میرے  حصے کے سونے کو مسجد یا مدرسہ میں لگالیں ،لیکن بھائی نے اس پر عمل نہیں کیا تھا کہ اس بہن کا اور پھر اس کے بعد بھائی کا بھی انتقال ہوگیا تو اس صورت میں تمام زیورات میں سے والد کا حصہ والد کے ورثاء میں اور بہن کا حصہ بہن کے ورثاء میں شرعی حصوں کے بقدر تقسیم کیا جائے گا،مرحومہ بہن کے انتقال کے وقت کون کون سے ورثاء زندہ تھے ، ان کی تفصیل بتا کر بہن کے ترکہ کی  تقسیم کا طریقہ معلوم کیا جا سکتاہے۔

نیز مذکورہ صورت میں اگر دونوں بہوؤں کا دعوی درست ہو، تب بھی چوں کہ مرحوم سسر نے اپنی بہوؤں کو اپنے حصے کا سونا دینے کی خواہش کا اظہار کیا تھا،باقاعدہ  ہبہ کرکے قبضہ  نہیں دیا تھا تو صرف اس خواہش کے اظہارکرنے سے کسی کی ملکیت ثابت نہیں ہوگی ،والد مرحوم کا سونا ان کے ورثاء میں ان کے حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وإذا مات أحد المتفاوضين أو تفرقا، لم يكن للذي لم يلي المداينة أن يقبض الدين؛ لأن الشركة بطلت بموت أحدهما؛ لأنها وكالة، والوكالة تبطل ‌بموت ‌الموكل لبطلان أمره بموته وتبطل بموت الوكيل لتعذر تصرفه فتبطل الشركة فلا يجوز لأحدهما أن يقبض نصيب الآخر إذا لم يكن هو الذي تولى العقد، ويجوز قبضه في نصيب نفسه؛ لأنه موكل فيه، وقبض الوكيل جائز استحسانا۔"

(کتاب الشرکۃ،فصل فی حکم الشرکۃ،ج:۶،ص:۷۵،ط:سعید)

موسوعۃ فقہیہ میں ہے:

"تبطل ‌الوكالة بموت الموكل أو الوكيل باتفاق الفقهاء. وذلك لأن الموت مبطل لأهلية التصرف، فإذا مات الموكل أو الوكيل بطلت أهليته بالموت فتبطل الوكالة.

ولأن الوكيل نائب عن الموكل في ماله، وقد انتقل هذا المال بالوفاة إلى ورثته، فلا يلزمهم ما باع أو اشترى۔"

(وكالة،ج:45،ص:106،ط:دارالسلاسل)

فتاوی شامی میں ہے:

"وتتم الھبۃ بالقبض الکامل"

(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الھبہ ،ج:۵ ،ص:۶۹۰،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100052

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں