بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

معاہدے کے تحت کام کرنے پر اجرت کا استحقاق


سوال

میں ایک پارٹی کے ساتھ معاہدے پر پانچ سال سے کام کررہا ہوں، میرا کام ان کا آرڈر لے کر بلڈنگ بنانا ہے، مزدور وغیرہ اور نگرانی میری ہوتی ہے، شروع شروع میں ان کے ساتھ کام کرتے وقت بلڈنگ پر جتنے اخراجات آتے تھے، اس کا 15 فیصد وصول کرتا تھا، پھر جب کام بڑھا اور مجھے مزدور بڑھانے پڑے اور زیادہ بلڈنگ اور فیکٹری کے کام میرے ذمہ لگے تو یہ معاہدہ ہوا کہ 12 فیصد میرا ہوگا، چوں کہ منیجر بھی اس کے لیے مجھے رکھنے پڑتے تو انہوں نے کہا کہ منیجر ہماری طرف سے ہوں گے اور آپ 10 فیصد پر کام کرلیں تو میں راضی ہوگیا اور آخر کار 10 فیصد پر میں ان کے ساتھ کام کرنے لگا۔

اب ہوا یہ کہ دیگر کاموں کے ساتھ ان پارٹی والوں کی اپنی فیکٹری کا کام بھی انہوں نے میرے ذمہ لگایا اور ایک پرانے آدمی (زید) کو میرے ساتھ مدد کے طور پر شامل کیا، کیوں کہ پرانی فیکٹری اس کی نگرانی میں بنی تھی، اس کے ساتھ انہوں نے یہ معاہدہ کیا کہ لیبر کے حساب سے اسے 10 فیصد ملے گا، یعنی ریت، بجری، سریا اور سیمنٹ وغیرہ کے اخراجات کے علاوہ مزدوری کی قیمت کے لحاظ سے 10 فیصد اس کا ہوگا اور میرے ساتھ کوئی نیا معاہدہ یا بات چیت کچھ نہیں ہوئی بل کہ میں دیگر کاموں کی طرح ان کا یہ کام بھی کرتا رہا اور چوں کہ معاہدہ ایک دفعہ ہوچکا تھا کہ ان کے ہر تعمیراتی کام کے کل اخراجات کا 10 فیصد کے حساب سے میرا حق ہوگا تو میں بھی کام کرتا رہا اور میں نے چھ مہینے میں ان کی فیکٹری کا کام مکمل کردیا،  جب کہ مزدور وغیرہ سب میرے لگے تھے اور نگرانی بھی میری تھی، لیکن پارٹی والے مجھے کچھ بھی دینے کو تیار نہیں اور 17 لاکھ 80 ہزار روپے جو دیے تھے مذکورہ فیکٹری کی تعمیر کے وقت، تو اسے دیگر تعمیراتی کاموں میں جو میرا حق بنتا تھا، اس سے کاٹ لیا ہے،  جب کہ مذکورہ کمپنی کے کام کی وجہ سے ان پر میرے 10 فیصد کے حساب سے 70 لاکھ روپے بنتے ہیں۔

لہٰذا مذکورہ تفصیل کی رو سے مجھے بتایا جائے کہ عام معاہدے کے مطابق جو میرا ان سے ایک دفعہ ہوچکا تھا، میں 10 فیصد کے حساب سے 70 لاکھ روپے کی رقم کا مستحق ہوں یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کا مذکورہ پارٹی والوں کے ساتھ جب ایک دفعہ یہ معاہدہ ہوچکا تھا کہ ان کے ہر تعمیراتی کام کے کل اخراجات کا 10 فیصد نفع اس کا ہوگا اور اس کےبعد دوبارہ معاہدے کی تجدید نہیں ہوئی اور نہ اس میں کوئی تبدیلی ہوئی اور سائل اسی معاہدے کو سامنے رکھ کر پارٹی والوں کی فیکٹری کی تعمیر اپنے مزدوروں سے اپنی نگرانی میں  کرواتا رہا اور انہیں کام مکمل کرکے دے چکا تو اب وہ اسی سابقہ معاہدے کے تحت 10 فیصد کے حساب سے 70 لاکھ روپے کا مستحق ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا يستحق المشترك الأجر حتى يعمل كالقصار ونحوه) كفتال وحمال ودلال وملاح.

و في الرد : (قوله: حتى يعمل) لأن الإجارة عقد معاوضة فتقتضي المساواة بينهما، فما لم يسلم المعقود عليه للمستأجر، لا يسلم له العوض، والمعقود عليه هو العمل أو أثره على ما بينا، فلا بد من العمل زيلعي."

(کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ ج : 6 ، ص : 64 ط : سعید)

فقط واللہ علم


فتوی نمبر : 144304101005

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں