بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

معاف کیا ہوا حق وصول کرنے کا حکم


سوال

ہم دو بھائی اور دو بہنیں ہیں  ،ہمارے والدین کا انتقال ہوچکا ہے،والدین کےانتقال کے آٹھ سال بعد میں نے  کوشش کر کے اپنے تایا زاد بھائی کو  منصف بنا کر  والدین کے  ترکہ   کو تقسیم کیا،والدین کے ترکہ میں ایک  مکان تھاجس  کی کل قیمت ہم نے (0 21،00،00  ) اکیس لاکھ روپے لگوائی  جس پر سب متفق ہوگئے،مکان ہم دو بھائیوں نے رکھ لیا اورہر ایک  بہن کو  ان کے حصہ کی قیمت  ساڑھے تین لاکھ روپے(350000)دینا  ہر ایک بھائی پر طے پایا،پھر بھائی کچھ عرصہ اپنے مکان کو لاک کرکے چلے گئے  اس عرصہ میں بھائی کے مکان  کے جو یوٹیلٹی بلز تھے وہ میں نے ادا کیے ،اور مکان کی پارٹیشن (تقسیم ) کے وقت عمارت کو  نقصان سے بچانے کے  لیے ایک فٹ بائے 33 فٹ  زمین جو میرے حصہ میں آرہی تھی  درمیان میں آنے کی وجہ سے میں نے    وہ بھائی کو دے دی ،اور طے یہ ہوا کہ بھائی اس حصہ کی قیمت دیں گے ،اور اسی طرح  والد کی دکان بمع سامان بھائی نے چھپ کر فروخت کردی ،ان تینوں چیزوں کی قیمت  7،50،000 ساڑھے سات لاکھ روپے بھائی کے اوپر آتی تھی ،اور اس کو بھائی نے قبول بھی کیا ،مگر ان تینوں (بہن ،بھائی )نے اور تایا زاد بھائی جو منصف تھے انہوں نے مجھ پر اصرار کیا اور مجھ سے یہ رقم معاف کروالی اور میں کہہ دیا کہ، میں معاف کرتاہوں ، میرے اوپر بہنوں کا جو حصہ بنتا تھا اس میں سے میں نے ایک لاکھ  روپے ادا کردیے اڑھائی لاکھ روپے باقی ہیں ،اب بڑی بہن اپنی باقی رقم کا  ہر وقت تقاضہ کرتی رہتی ہیں جب کہ بات یہ طے ہوئی تھی کہ جب تمہارے  پاس پیسے ہوں  اس وقت ادا کردینا،میں لاکھوں روپے کا مقروض ہوں اور میری بیوی کینسر کے مرض میں مبتلا ہےاس وجہ سے میں پریشان ہوں۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ جو رقم بہنوں اور بھائی نے معاف کروائی تھی کیا میں اس کا مطالبہ کرسکتا ہوں ؟اس معافی پر کوئی تحریر نہیں ہے صرف زبانی بات ہوئی تھی۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل  جب اپنےحصے  کی رقم اپنی بہنوں اور بھائی کو  معاف کرچکاہے اور خود اس کااقراربھی کرتاہے ،تواب معاف کردینے کے بعد اس کا مطالبہ کرناشرعاً جائزنہیں،البتہ سائل چونکہ مالی اعتبار سے پریشان حال ہے اس وجہ سے سائل کی بہن کو چاہیے کہ سائل کے ساتھ نرمی والا معاملہ کرے ۔

حدیث شریف میں قرض کی معافی اورتخفیف پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی فضلیتیں ذکرفرمائی ہیں،جس قدرقرض کی رقم معاف کی گئی ہو اس کے بقدرصدقہ کاثواب ملتاہے،نیزقرض کی معافی کی بناء پرقیامت کے دن مصائب سے چھٹکارانصیب ہوگااوربعض روایات میں ہے کہ عرش کاسایہ نصیب ہوگا۔ اس لیے شرعاً واخلاقاًسائل کو چاہیے کہ  قرض کی  رقم معاف کرنے کے بعد اب مطالبہ کرکے اپنے ثواب کو ضائع نہ کرے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"هبة الدين ممن عليه الدين جائزة قياسًا واستحسانًا ...

هبة ‌الدين ‌ممن عليه الدين وإبراءه يتم من غير قبول من المديون ويرتد برده ذكره عامة المشايخ رحمهم الله تعالى."

[فتاوی عالمگیری،الباب الخامس فی الرجوع فی الہبۃ،ج:4،ص:384۔ط:رشیدیہ کوئٹہ]

وفیه  ایضا:

"يجب أن يعلم بأن الهبة أنواع، هبة لذي رحم محرم وهبة لأجنبي أو لذي رحم ليس بمحرم أو لمحرم ليس بذي رحم وفي جميع ذلك للواهب حق الرجوع قبل التسليم هكذا في الذخيرة، سواء كان حاضرا أو غائبا أذن له في قبضه أو لم يأذن له، كذا في المبسوط.

ليس له حق الرجوع بعد التسليم في ذي الرحم المحرم وفيما سوى ذلك له حق الرجوع إلا أن بعد التسليم لا ينفرد الواهب بالرجوع بل يحتاج فيه إلى القضاء أو الرضا أو قبل التسليم ينفرد الواهب."

[فتاوی عالمگیری،الباب الخامس فی الرجوع فی الہبۃ،ج:4،ص:385۔ط:رشیدیہ کوئٹہ]

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100871

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں