بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

معاوضہ لے کر دوسرے طالب علم کا اسائنمنٹ لکھنا


سوال

کچھ دن قبل آپ کا ایک فتوی دیکھا جو کسی معاوضہ کے بدلے دوسرے طالب علم کی اسائنمنٹ کے متعلق تھا جس کےبارے میں آپ نے کہا تھا کہ کسی اور سے اسائٹمنٹ لکھوانا ناجائز ہے، میرا سوال یہ ہے کہ آج کل مجھے ایک لڑکی  کی اسائمنٹ  ملی ہے، جس  کے بھائی کا ابھی حال ہی میں انتقال ہوا ہے اس وجہ سے وہ توجہ نہیں دے پا رہی،  وہ خود بھی تھوڑی بہت  میری مدد کر رہی ہے، مجھے کچھ چیزیں بتا رہی ہے ، مگر  باقاعدہ اسائمنٹ میں کر رہا ہوں، کیا میرے لیے اس کا معاوضہ لینا جائز ہے یا نہیں؟

اس کے علاوہ اڑھائی برس سے میں یہ کام کر رہا ہوں، میری اسں سے کمائی گئی ساری آمدنی حرام ہے یا حلال؟ اگر حرام ہے تواب میں کیا کروں جب کہ میں پچھلے سارے پیسے خرچ کر چکا ہوں اور اب میں ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ بھی نہیں کرسکتا، کیوں کہ میرے پاس پیسے نہیں ہے،تو کیا ایسی صورت میں صرف توبہ کافی ہوگی یا صدقہ کرنا بھی ضروری ہوگا؟

جواب

تعلیمی خدمات  چاہے دینی ہوں یا دنیوی فراہم کرنے پر اجرت لینا فی نفسہ جائز ہے،  شرعی طور پر اس میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ کسی بھی تعلیمی ادارے کی جانب سے طالبِ علم(Student) کو دیا گیا وہ کام جس  سے اس طالبِ  علم کی صلاحیت کا امتحان مقصود ہو، اس کی کارکردگی کا تعین ہو  اور اس کی بنیاد پر مستقبل میں اس طالب علم کو سند (Degree) جاری کی جاتی ہو ، ایسا تعلیمی کام طالبِ علم  پر بذاتِ خود سرانجام دینا لازم ہے۔ورنہ مستقبل میں یہی طالبِ  علم  نا اہلی کے باوجود اس ڈگری کی بنیاد پر وہ سہولیات  حاصل کرے گا جو اصل ڈگری والوں کا حق ہے۔

لہذا کسی بھی طالب علم یا طالبہ کے لیے اپنی اسائنمنٹ (Assignment) ، مقالہ جات ، مضامین کسی اور سےلکھوانا جھوٹ ، دھوکا  دہی اور دوسروں کی حق تلفی میں شامل ہے، جو کہ ناجائز ہے۔البتہ  جزوی معاونت،حوالہ جات کی فراہمی یا کمپوزنگ و سیٹنگ میں کسی سے تعاون لینا اس میں  داخل نہیں ہے۔

نیز جائز مواد پر مشتمل مقالہ یا مضمون وغیرہ لکھنا فی نفسہ جائز کام ہے،اور اس پر اجرت لینا بھی  فی نفسہ حلال ہے، لیکن  جان بوجھ کر ایسا کرم کرنا مناسب نہیں ہے، کیوں کہ اس سے طالب یا طالبہ کی جانب سے آگے دھوکہ دینے کا ذریعہ بنے گا، خلاصہ یہ ہے کہ طالب یا طالبہ کے یے اپنا اسائمنٹ کسی اور سے لکھوانا جائز نہیں، لیکن لکھ کر دینے والے کے لیے اجرت حرام نہیں،اور صدقہ کرنا بھی لازم نہیں،کیوں کہ یہ اجرت فی نفسہ جائز کام کے عوض میں  ملی ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

 "عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من حمل علينا السلاح فليس منا، ومن غشنا فليس منا."

 (کتاب الإیمان، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: «من غشنا فليس منا، ج: 1، ص: 99، ط: مطبعة عيسى البابي الحلبي)

ترجمہ :" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ :جس نے ہم پر اسلحہ اٹھایاوہ ہم میں سے نہیں ہے ،اور جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔"

مسند احمد میں ہے: 

"عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب." 

(تتمة مسند الأنصار، حديث أبي أمامة، 504/36، رقم الحدیث: 22170، ط:  مؤسسة الرسالة)

ترجمہ:"حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مؤمن ہر خصلت پر ڈھل سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔"

بحوث فی قضایا فقہیۃ معاصرۃ میں ہے:

"وبيع العصير ممن يتخذه خمرا، ‌وبيع ‌الأمرد ممن يعصي به، وإجارة البيت ممن يبيع فيه الخمر، أو يتخذها كنيسة أو بيت نار وأمثالها، فكله مكروه تحريما، بشرط أن يعلم به البائع والآجر من دون تصريح به باللسان؛ فإنه إن لم يعلم كان معذورا، وإن علم وصرح كان داخلا في الإعانة المحرمة وإن كان سببا بعيدا، بحيث لا يفضي إلى المعصية على حالته الموجودة، بل يحتاج إلى إحداث صنعة فيه، كبيع الحديد من أهل الفتنة وأمثالها، فتكره تنزيها."

(أحكام الودائع المصرفية، ص: 361، ط: دار القلم)

وفیہ ایضًا:

"والقسم الثاني من السبب القريب، ما ليس بمحرك للمعصية في نفسه، بل تصدر المعصية بفعل فاعل مختار، مثل بيع ممن يتخذه خمرا، أو إجارة الدار لمن يتعبد فيها للأصنام، فإن هذا البيع أو الإجارة وإن كان سببا قريبا للمعصية، ولكنه ليس جالبا أو محركا للمعصية في نفسه … وحكم هذا النوع من السبب القريب أن البائع أو المؤجر إن قصد بذلك إعانة المشتري أو المستأجر على معصيته، فهو حرام قطعا. أما إذا لم ينو بذلك المعصية، فله حالتان: الحالة الأولى أنه لا يعلم أن المشتري يتخذ من العصير خمرا. وفي هذه الحالة يجوز البيع بلا كراهة. أما إذا علم أنه يتخذه خمرا، فإن البيع مكروه … فإن كان المبيع يستعمل للمعصية بعينه، من غير احتياج إلى تغيره، فالكراهة تحريمية، وإلا فهي تنزيهية."

(أحكام الودائع المصرفية، ص: 362، ط: دار القلم)

فتاوٰی شامی میں ہے :

"وكذا لايكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة؛ لأنه ليس عينها منكراً، وإنما المنكر في استعمالها المحظور اهـ  قلت: لكن هذه الأشياء تقام المعصية بعينها لكن ليست هي المقصود الأصلي منها، فإن عين الجارية للخدمة مثلاً والغناء عارض فلم تكن عين المنكر، بخلاف السلاح فإن المقصود الأصلي منه هو المحاربة به فكان عينه منكراً إذا بيع لأهل الفتنة، فصار المراد بما تقام المعصية به ما كان عينه منكر بلا عمل صنعة فيه، فخرج نحو الجارية المغنية؛ لأنها ليست عين المنكر، ونحو الحديد والعصير؛ لأنه وإن كان يعمل منه عين المنكر لكنه بصنعة تحدث فلم يكن عينه."

(كتاب الجهاد، باب البغاة، 268/4، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وعلى هذا يخرج الاستئجار على المعاصي أنه لا يصح لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا كاستئجار الإنسان للعب واللهو، وكاستئجار المغنية، والنائحة للغناء، والنوح بخلاف الاستئجار ‌لكتابة ‌الغناء والنوح أنه جائز؛ لأن الممنوع عنه نفس الغناء، والنوح لا كتابتهما."

(كتاب الإجارة، فصل في أنواع شرائط ركن الإجارة، ج:4، ص:189، ط:دار الكتب العلمية)

درر الحكام فی شرح مجلۃ الاحكام ميں ہے:

"‌إذا ‌اجتمع ‌المباشر والمتسبب أضيف الحكم إلى المباشر هذه القاعدة مأخوذة من الأشباه. ويفهم منها أنه ‌إذا ‌اجتمع ‌المباشر أي عامل الشيء وفاعله بالذات مع المتسبب وهو الفاعل للسبب المفضي لوقوع ذلك الشيء ولم يكن السبب ما يؤدي إلى النتيجة السيئة إذا هو لم يتبع بفعل فاعل آخر، يضاف الحكم الذي يترتب على الفعل إلى الفاعل المباشر دون المتسبب."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، المادة: 90، ط: دار الجيل)

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:

"والملك الخبيث ‌سبيله ‌التصدق به، ولو صرفه في حاجة نفسه جاز. ثم إن كان غنيا تصدق بمثله، وإن كان فقيرا لا يتصدق."

(كتاب الغصب، 3/61، ط: دارالكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101189

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں