بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

معاہدہ منسوخ ہونے کے بعد بروکری کا حکم


سوال

ایک زمین فروخت ہوئی جس کی مالیت12کروڑ تھی اس زمین کے تین بروکر تھے ، اس زمین کا سودا طے ہوگیا ، اور بروکر کا کمیشن بھی دونوں طرف سے ایک ایک فیصد طے ہوگیا خریداروں نے چار سے ساڑھے چار کروڑ تک کی رقم کی ادائیگی  کردی ، پھر باقی پیمنٹ رک گئی اور ادائیگی بھی  مشکل ہوگئی۔ دونوں پارٹیوں نے اس مسئلہ کا حل یہ نکالا کہ اس زمین کا مالک چوتھائی زمین کا پارٹنر بن جائے، تو مالک نے40فیصد حصہ اپنے پاس رکھااور60فیصد حصہ خریداروں کو دیدیا ، اور زمین پر کام شروع ہوگیا۔ اب جو رقم آرہی ہے وہ تعمیر پر لگ رہی ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ کمیشن (بروکری )12کروڑپر ہوگی یا کہ60فیصد پر ہوگی؟برائے مہر بانی شریعت کے مطابق اس کا حل بتائیں !

جواب

      واضح رہے کہ ایک معاملہ یا عقد  کو مکمل کیے  بغیر اس کے  اندر دوسرا معاملہ یا عقد کرنا شرعاً ناجائز ہے ، نیز   کسی چیز کی خرید و فروخت کے لیے بائع اور مشتری کے درمیان واسطہ کا کام جو کرتا ہے اسے شریعت کی اصطلاح میں دلا ل (بروکراور کمیشن ایجنٹ)   کہتے  ہیں ۔ دلال اپنے حصے کا کام کرکے  طے شدہ اجرت کا مستحق ہوجاتا ہے ،کام کی تکمیل کے بغیر ایجنٹ بروکری (کمیشن)کا حق دار نہیں ہوتا۔

        مذکورہ تفصیل کی رو سے صورت ِ مسئولہ میں خریداروں نے بائع کو اس  کی تمام رقم ادا نہیں کی تھی تو عقد کو ختم  کیے بغیر بائع کو  اسی زمین میں شریک کرنا حدیث کی رو سےناجائز ہے ، البتہ خریداروں  نے جتنی رقم ادا کردی ہے اس کے بقدر زمین میں بیع تام کرکے بقایا زمین  کے عقد کو فسخ کردیں تو اس صورت میں بائع کے لیے مذکورہ زمین میں شرکت کرنا شرعًا جائز ہوگا۔

نیز بروکر کو اس کی اجرت کام کے مکمل ہونے کے بعد دی جاتی ہے اور عرف میں بروکری کا حق دار تب ہوتا ہے جب مشتری اور بائع کے درمیان سودا مکمل ہوجائے یعنی مشتری بائع کو پوری رقم ادا کرکے سودا مکمل کرلے ۔جب کہ زیرِ  نظر مسئلہ میں سودا صرف 60فیصد میں پورا ہوا باقی  40فیصد میں سودا نہیں کیا گیا تو ایسی صورت میں ہر  بروکر 60 فیصد کے بقدر  اپنی بروکری کا حق دار ہے ۔  

مجمع الزوائد میں ہے:

"عن عبد الله بن مسعود قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ‌صفقتين في صفقة واحدة»."

(باب ما جاء فی الصفقتین فی صفقۃ،ج۔۴،ص۔۸۴،ط۔مکتبۃ القدسی)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: والسمسار) هو المتوسط بين البائع والمشتري بأجر من غير أن يستأجر."

(ردالمحتار علی الدر المختار، فصل فی المتفرقات فی المضاربۃ، ج۔۵،ص۔۶۵۶،ط۔سعید)

درمختارمیں ہے:

"(و لايستحق ‌المشترك ‌الأجر حتى يعمل كالقصار ونحوه) كفتال و حمال و دلال و ملاح."

(ردالمحتار علی الدر المختار، باب ضمان الاجیر، ج۔۶،ص۔۶۴،ط۔سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100007

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں