بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

معاف کیا ہوا حق وصول کرنے کا حکم


سوال

فروٹ منڈی میں ایک تاجر کے ایک شخص پر دس لاکھ روپے قرض تھا،جس شخص پر قرض تھا اس نے کہا کہ میں پانچ لاکھ تو دوں گا،بقیہ پانچ لاکھ روپے میں ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا،مجھے کاروبار میں بہت نقصان ہوا ہے ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مقروض صاحب ِ حیثیت ہے،اس مسئلہ کا منڈی میں فیصلہ ہوا فیصلہ میں یہ طے ہوا کہ تاجر صاحب  مقروض سے پانچ لاکھ وصول کریں اور باقی پانچ لاکھ معاف کر دیں ،فیصلے میں تاجر نے پانچ لاکھ معاف کر دیے،لیکن اب تاجر کہہ رہا ہے کہ میں نے دل سے معاف نہیں کیے،کیا وہ شخص اب بھی تاجر  کا مقروض رہے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب  تاجر نے اپنا قرضہ فیصلے کے وقت  بغیر کسی جبر واکراہ کے اپنی رضامندی سےمعاف کر دیا تھا ،اب وہ اپنا  معاف کیا ہوا قرض  مانگ نہیں سکتا،البتہ مقروض کو چاہیے کہ اگر  وہ واقعتاً  صاحب حیثیت ہے ،تو تاجر کو اس کا پورا قرض ادا  کرے۔

درر الحکام فی  شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"إذا ‌تم ‌الصلح فليس لواحد من الطرفين فقط الرجوع."

(الكتاب الثاني عشر حق  الصلح والابراء،الباب الرابع في بيان الصلح،56/4،ط:دار الجيل)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"هبة الدين ممن عليه الدين جائزة قياسًا واستحسانًا ...

هبة ‌الدين ‌ممن عليه الدين وإبراءه يتم من غير قبول من المديون ويرتد برده ذكره عامة المشايخ رحمهم الله تعالى."

[کتاب الھبۃ،الباب الخامس فی الرجوع فی الہبۃ،4 /384،ط:رشیدیہ کوئٹہ]

وفیه  ایضا:

"يجب أن يعلم بأن الهبة أنواع، هبة لذي رحم محرم وهبة لأجنبي أو لذي رحم ليس بمحرم أو لمحرم ليس بذي رحم وفي جميع ذلك للواهب حق الرجوع قبل التسليم هكذا في الذخيرة، سواء كان حاضرا أو غائبا أذن له في قبضه أو لم يأذن له، كذا في المبسوط.

ليس له حق الرجوع بعد التسليم في ذي الرحم المحرم وفيما سوى ذلك له حق الرجوع إلا أن بعد التسليم لا ينفرد الواهب بالرجوع بل يحتاج فيه إلى القضاء أو الرضا أو قبل التسليم ينفرد الواهب."

[کتاب الھبۃ،الباب الخامس فی الرجوع فی الہبۃ،4/ 385،ط:رشیدیہ کوئٹہ]

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101329

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں