بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

منہ میں آنسو داخل ہونے کی صورت میں روزے کاحکم


سوال

سائنس کہتی ہے کہ آنسو آ نکھ میں بننے کے بعد براستہ ناک گلے میں اترتے ہیں یعنی یہ تحقیق سے ثابت ہے ، اب سوال یہ ہے کہ اگر روزے میں انسان کے آنسو منھ میں آئے بغیر براہِ راست  گلے میں اتریں اور  منھ میں داخل  نہ ہوئے ہوں، ( واضح رہے کہ ایک بھی آنسو منھ میں نہ گیا ہو یعنی منھ کے راستے حلق میں نہ پہنچے ہوں) تو پھر ایسی صورت میں کیا روزہ  ٹوٹ جاتا ہے؟

جواب

واضح رہےکہ  انسان کو شریعت کی پابندی کا مکلف بنایاگیاہے ،سائنسی تحقیقات کا نہیں ،شریعت چوں کہ ظاہر پر حکم لگاتی ہے ،لہذا آنسو بننے کے بعد اگر براہ راست حلق میں اتر جائیں(منہ میں آئے بغیر )تواس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا، اور  اگر منہ کے راستے حلق میں اترے تو  ایک دو قطروں سے تو روزہ فاسدنہ ہوگا،اور اگربہت زیادہ آنسو منہ  میں جمع ہو گئے اس طرح  کہ اس کی نمکینی منہ میں محسوس ہو پھر اس ان کو نگل لیا تو  روزہ  فاسد  ہوجائے گا۔

کنزالعمال میں ہے:

"‌لقد ‌تركتكم على البيضاء ليلها كنهارها لا يزيغ عنها بعدي إلا هالك ومن يعش منكم فسيرى اختلافا كثيرا فعليكم بما عرفتم من سنتي وسنة الخلفاء المهديين الراشدين وعليكم بالطاعة وإن كان عبدا حبشيا عضوا عليها بالنواجذ فإنما المؤمن كالجمل الأنف حيثما قيد انقاد". (حم طب عن العرباض)." 

(‌‌الكتاب الأول من حرف الهمزة: في الإيمان والإسلام،‌‌الباب الثاني: في الاعتصام بالكتاب والسنة،٢١٢/١،ط:مؤسسة الرسالة)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"الدموع اذا دخلت فم الصائم ان كان قليلا كالقطرة والقطرتين او نحوها لا يفسد صومه وان كان كثيرا حتى وجد ملوحته في جميع فمه ، واجتمع شيء كثير فابتلعه يفسد صومه، و كذا عرق الوجه اذا دخل فم الصائم كذا في الخلاصة."

‌‌(كتاب الصوم،‌‌النوع الأول ما يوجب القضاء دون الكفارة،٢٠٢/١،ط :دارالفكر بيروت وغيرها)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الامداد عن خط المقدسي أن القطرة لقلتها لا يجد طعمها في الحلق لتلاشيها قبل الوصول ، ويشهد لذلك مافي الواقعات للصدر الشهيد : إذا دخل الدمع في فم الصائم إن كان قليلا نحو القطرة أو القطرتين لايفسد صومه لأن التحرز عنه غير ممكن،و إن كان كثيرا حتى وجد ملوحته في جميع فمه وابتلعه فسد صومه، و كذا الجواب في عرق الوجه اه. ملخصا."

(‌‌كتاب الصوم،‌‌باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده،٤٠٤/٢،ط:دار الفكر - بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409101199

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں