بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ کو اپنا حق مہر پورا ادا کرنا


سوال

میرے شوہر نے مجھے طلاق دی ہے اور حق مہر میں 5تولہ سونا تھا اور گھر کا ایک چوتھائی حصہ لکھا گیاتھا  ،اس گھر میں سے میرے سسر نے ایک حصہ متعین کرکے مجھے دیا تھا ، میرے شوہر کے بھائیوں نے اب وہ گھر  ساڑے تریسٹھ لاکھ روپے میں بیچا ہے، اور تین بھائیوں  نے اپنا حصہ لیا ہے، جب کہ ایک چوتھائی حصہ جو میرا حق مہر تھا، وہ مجھےابھی  تک نہیں دیا گیا، اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ اس میں آپ ہماری بہنوں کوبھی حصہ دوگے ۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ گھر کا ایک چوتھائی حصہ جو میرا حق مہر ہے وہ پورا مجھے ملے گا یا اس    میں سے شوہر  کی بہنوں کو حصہ دینا ہوگا ؟

2۔منہ دکھائی پر مجھے جو چیز یں ملی تھی وہ واپس کرنی ہوگی یا وہ میری ملکیت ہیں ؟

3۔میرا ایک نو سال کا بیٹا ہے، وہ کس کے پاس رہے گا اور اس کاخرچہ کس پر ہوگا ؟

4۔ میں والدین کے گھر پر عدت میں ہوں ،تو میرا خرچہ شوہر پر لازم ہے کہ نہیں؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں  اگر واقعۃً سائلہ کے سسر نے  نکاح کے وقت سائلہ کے لیے پانچ تولہ سونے  کے ساتھ  اپنے گھر کا  ایک چوتھائی حصہ بطورِمہرمقرر کیا تھا اور شادی کے بعد  اس  نے وہ حصہ متعین کرکے سائلہ کو  دے بھی دیا تھا، اور  سسر کے انتقال کے بعد سائلہ کے شوہر کے بھائیوں نے مذکورہ گھر بیچ دیا، تو  اس گھر کے چوتھائی حصہ کی جتنی رقم بنتی ہے وہ صرف سائلہ ہی كا حق ہے، اس میں سائلہ کے شوہر کی بہنوں کا حصہ نہیں ہے۔

2۔شادی کے موقع پر  سائلہ کے شوہر یا سسرال والوں  نے منہ دکھائی پر جو چیزیں سائلہ کو دی  تھیں  وہ سائلہ کی ملکیت ہے ؛لہذا ان چیزوں کو واپس لینا جائز نہیں ہے۔

3۔ لڑکے  کی عمر سات  سال ہونے تک  پرورش  کا حق ماں کو حاصل تھا ،اب چوں کہ لڑکا نو سال کا ہے ؛لہذا  اس کی پرورش کاحق والد کو حاصل ہے۔ اور بچے کا خرچہ باپ  ہی پر لازم ہے ۔

4۔سائلہ اگر شوہر کی اجازت سے والدین کے گھر پر عدت گزار رہی ہے تو عدت کے دوران  اس کا خرچہ شوہر کے ذمہ  لازم ہے اور اگر شوہر کی اجازت کے بغیر والدین کے گھر پر آئی ہے تو پھر عد ت کے دوران اس کا خرچہ شوہر پر لازم نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" ولو تزوج على نصيبه من هذه الدار قال أبو حنيفة - رحمه الله تعالى - لها الخيار إن شاءت أخذت النصيب، وإن شاءت أخذت مهر مثلها لا يزاد على قيمة الدار"

(کتاب النکاح،الباب السابع فی المہر،ج:1،ص: 310،ط:رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً".

(کتاب النکاح، باب المهر، ج:3 ،ص:153، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب"

(کتاب الطلاق، باب الحضانة، ج:3 ،ص:566، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"(و) تجب (لمطلقة الرجعي والبائن، والفرقة بلا معصية كخيار عتق، وبلوغ وتفريق بعدم كفاءة النفقة والسكنى والكسوة) إن طالت المدة،"

(کتاب الطلاق، باب النفقة،مطلب في نفقة المطلقة، ج:3 ،ص:609، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144305100124

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں