بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

متبع سنت امام کے خلاف باتیں کرنے والے مقتدی کی نماز کا حکم/ مسجد کے باہر بھیک مانگنے والے عورتوں کو بھیک دینے کا حکم


سوال

اگر کوئی مقتدی مسجد محلہ کے امام کے  خلاف باتیں کرتا ہے، جب کہ امام بظاہر شریعت اور امامت کے اصولوں پر پورا  اترتا ہے، تو اس مقتدی کا امام کے پیچھے نماز کا کیا حکم ہے؟

مسجد کے دروازے کے سامنے نوجوان بے پردہ لڑکیاں، عورتیں بھیک مانگتی ہے، مسجد سے نکلتے ہوئے نمازیوں کی بدنظری کا سبب بھی بنتی ہے، ایسی عورتوں کو بھیک دینا کیسا ہے؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں جب امام میں خلافِ شرع کوئی بات موجود نہیں ہے وہ  متبعِ سنت ہے اور امامت کے اصولوں پر پورا اترتا ہے، لیکن اس کے باوجود  کوئی شخص   امام کے خلاف باتیں کرتا ہے، تو اسے  چاہیے کہ امام سے معافی مانگے اور اپنی اصلاح کرے، اس مقتدی کا مذکورہ امام کے  پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی   ہے۔

2۔واضح رہے کہ مسجد کے دروازوں پر بےپردہ خواتین کا بھیک مانگنا درست نہیں، ایسی خواتین کو نرمی سے سمجھایا جائے، اگر سمجھانے کے باوجود نہ مانیں تو انہیں بھیک نہیں دینی چاہیے، تاکہ ان کی حوصلہ شکنی ہو، تاہم اس کے باوجود اگر کوئی شخص ایسی خواتین کو بھیک دیتاہےتو اس کی نیت کے اعتبار سے اسے ثواب ملے گا ۔

مشكاة المصابيح میں ہے:

"و عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الجهاد واجب عليكم مع كل أمير برًّا كان أو فاجرًا و إن عمل الكبائر. والصلاة واجبة عليكم خلف كل مسلم برًّا كان أو فاجرًا و إن عمل الكبائر. و الصلاة واجبة على كل مسلم برًّا كان أو فاجرًا و إن عمل الكبائر» . رواه أبو داود."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، الفصل الثاني، ج:1، ص: 103، ط:رحمانیة)

ترجمہ:اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے اوپر جہاد ہر سردار کے ہمراہ خواہ وہ نیک ہو یا بد واجب ہے اگر چہ وہ (سردار) گناہ کبیرہ کرتا ہو اور تم پر نماز ہر مسلمان کے پیچھے واجب ہے خواہ وہ (نماز پڑھانے ولا) نیک ہو یا بد واجب ہے اگر چہ گناہ کبیرہ کرتا ہو اور نماز جنازہ ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ نیک ہو یا بد اگر چہ گناہ کبیرہ  کرتا ہو۔

(مظاہرحق ، ج:1، ص:715،ط:دارلاشاعت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و لو أم قوماً وهم له كارهون، إن) الكراهة (لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة منه كره) له ذلك تحريماً؛ لحديث أبي داود: «لا يقبل الله صلاة من تقدم قوماً وهم له كارهون». (و إن هو أحق لا)، والكراهة عليهم".

(رد المحتار، كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص: 559، ط:سعید)

المحيط البرهاني میں ہے:

"و من أم قوم ‌وهم ‌له ‌كارهون، إن كانت الكراهة لفساد فيه، أو لأنهم أحق بالإمامة منه كره له ذلك، و إن كان هو أحق بالإمامة لم يكره: لأن الفاسق و الجاهل يكره العالم والصالح."

 (كتاب الصلاة، الفصل السادس، ج:1، ص: 407، ط:دار الكتب العلمية)

وفي الدر:

"(ولا) يحل أن (يسأل) من القوت (من له قوت يومه) بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب و يأثم معطيه إن علم بحاله لإعانته على المحرم."

و في الرد:

"(قوله: و يأثم معطيه إلخ) قال الأكمل في شرح المشارق: و أما الدفع إلى مثل هذا السائل عالماً بحاله فحكمه في القياس الإثم به؛ لأنه إعانة على الحرام، لكنه يجعل هبة و بالهبة للغني أو لمن لايكون محتاجًا إليه لايكون آثمًا اهـ. أي؛ لأن الصدقة على الغني هبة كما أن الهبة للفقير صدقة لكن فيه أن المراد بالغني من يملك نصابا أما الغني بقوت يومه فلاتكون الصدقة عليه هبة بل صدقة فما فر منه وقع فيه أفاده في النهر. وقال في البحر: لكن يمكن دفع القياس المذكور بأن الدفع ليس إعانة على المحرم؛ لأن المحرمة في الابتداء إنما هي بالسؤال وهو متقدم على الدفع و لايكون الدفع إعانة إلا لو كان الأخذ هو المحرم فقط فليتأمل اهـ.."

(رد المحتار، كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج:2، ص: 355، ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144306100783

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں