بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسئلہ دریافت کرتے وقت ساتھ میں دلیل کا بھی مطالبہ کرنا اورمفتی کے لیے دلیل کے ساتھ جواب دینے کاحکم


سوال

 بہت سے لوگ اہل علم سے مسئلہ دریافت کرتے وقت ساتھ میں دلیل کا بھی مطالبہ کرتے ہیں، کیا ہر عالم کے لیے دلیل کے ساتھ جواب دینا ضروری ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں عوام چونکہ دلائل کی اقسام اور اس سے استدلال کا علم نہیں رکھتے، اس لئے ان کا عالم سے دلیل کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے،اور عالم کے لیے بھی دلیل کے ساتھ جواب دیناضروری نہیں ، بلکہ ان کو چاہیے کہ کسی جید عالم  سے مسئلہ معلوم کرنے کے بعد اس پر عمل کریں، البتہ عالم کو حوالہ کا استحضار رہنا چاہیے، اندازے سے مسائل نہ بتائے۔
النامی شرح الحسامی میں ہے:

"التقلید اتباع الغیر علی ظن انه محق بلا نظر فی الدلیل."

(ص: 190،ط: قدیمی)

فتاوی شامی میں ہے:

"أن الواجب على المقلد العمل بقول المجتهد وإن لم يظهر دليله كما أفاده في رسم المفتى."

 (کتاب النکاح،باب الرضاع،ج:3،ص:210 ط:دار الفکر)

وایضافیہ:

"مطلب العامي لا مذهب له قلت: وأيضا قالوا العامي لا مذهب له، ‌بل ‌مذهبه مذهب مفتيه، وعلله في شرح التحرير بأن المذهب إنما يكون لمن له نوع نظر واستدلال وبصر بالمذهب على حسبه، أو لمن قرأ كتابا في فروع ذلك المذهب وعرف فتاوى إمامه وأقواله."

(کتاب الحدود،فروع ارتدت لتفارق زوجها،ج:4،ص:80،ط:دار الفکر)
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101679

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں