میری ایک سالی ہے،ان کا کوئی لڑکا نہیں ہے، ان کےشوہر اکثر بیمار رہتے ہیں، کام پر جاتے ہیں، گھر شوہر کا ہے ،لیکن آمدنی بہت قلیل ہے ،زیور اور نقد نہیں ہے اور سالی کے پاس کوئی جائیداد وغیرہ بھی نہیں ہے ،آپ سے یہ معلوم کرنا ہے کہ ان کو زکاۃ دی جاسکتی ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ سائل کی سالی کے پاس ضروریا تِ زندگی(رہنے کا مکا ن ،گھریلو برتن وغیرہ) او ر استعمال سے زائد اتنامال نہیں ہے جو نصاب کی مالیت (ساڑھے سات تولہ سونا ،اور ساڑھے باون تولہ چاندی یا ا س کی قیمت کو پہنچتاہو )اور وہ ہاشمی بھی نہ ہو تو ان کا زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ، زکوۃ دینے والوں کی زکوۃ ادا ہوجائے گی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"(منها الفقير) وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة فلا يخرجه عن الفقير ملك نصب كثيرة غير نامية إذا كانت مستغرقة بالحاجة كذا في فتح القدير. التصدق على الفقير العالم أفضل من التصدق على الجاهلكذا في الزاهد."
( كتاب الزكاة ،الباب السابع في المصارف ،ج: 1 ،ص: 188 ،ط: رشيديه)
فتاوی شامی میں ہے:
"مصرف الزکاۃ (و ھو فقیر و ھو من لہ أدنی شیئی) أی دون نصاب أو قدر نصاب غیرنام مستغرق فی الحاجۃ ."
(ردالمحتار ،كتاب الزكاة ،باب المصرف ،ج:2 ،ص: 339 ،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308100639
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن