بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلمان کے لیے غیر مسلم ممالک میں خنزیر یا غیر مذبوحہ جانور کو پکانے کی جگہ ملازمت کرنے حکم


سوال

چائنہ یا جاپان جیسے ملک میں کیا کسی ایسے ادارے میں کام کرنا جائز ہے جہاں مختلف پکوانوں کو تیار کر کے پیکنگ کی جاتی ہو، تاکہ وہ تیار حالت میں دکانوں تک پہنچائے جا سکیں اور ان کو گاہک فوری گرم کر کے کھا سکے ، یہ پکوان خنزیر کے گوشت پر بھی مشتمل ہو سکتے ہیں اور غیر ذبیحہ چکن اور بیف پر بھی ، ان میں کچھ حصہ چاول رکھے جاتے ہیں ، کچھ حصہ گوشت اور کچھ حصہ سالن کا جو کہ مذکورہ جانور کے گوشت پر مشتمل ہو سکتا ہے ؟ مقصد ایک تیار شدہ لنچ باکس کی تیاری ہوتی ہے جو کہ مختلف سٹوروں پر بعد ازاں بیچا جاتا ہے ۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں مذکورہ ادارے میں کام کرنااس شرط کے ساتھ جائز ہےکہ وہاں حلال جانوروں اور حلال  چیزوں کے پکانے  اور پیک وغیرہ کرنے کا کام کیا جائے، ایک مسلمان کے لیے خنزیر یا غیر مذبوحہ حرام جانوروں کو پکانا یا اس کو کھانے  کے قابل بنانے کے لیے کسی طرح کی خدمت سرانجام دینا جائز نہیں ،کیونکہ  شریعتِ اسلامی میں جس طرح  خنزیرکا گوشت ،غیر مذبوح  جانور  اور شراب   حرام  ہے،اسی طرح ان چیزوں کا  تیار کرنا یاپیش کرنا یا ان کی تیاری میں کسی طرح کا تعاون کرنا ناجائز اور حرام ہے۔

"وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} [المائدة: 2]"

"ترجمہ: اور ایک دوسرے کی نیک کام اور پرہیزگاری میں مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی پر مدد نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔ بیشک اللہ کا سخت عذاب ہے۔ "

فتاوی شامی میں ہے

"وما كان سببا لمحظور فهو محظور."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة،ج:6،ص:350،ط:دار الفکر)

صیحح البخاری میں ہے:

"عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما:أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول عام الفتح، وهو بمكة: (إن الله ورسوله ‌حرم ‌بيع ‌الخمر والميتة والخنزير، والأصنام). فقيل: يا رسول الله، أرأيت شحوم الميتة، فإنها يطلى بها السفن، ويدهن بها الجلود، ويستصبح بها الناس؟ فقال: (لا، هو حرام). ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك: (قاتل الله اليهود إن الله لما حرم شحومها جملوه، ثم باعوه، فأكلوا ثمنه)"

( كتاب البيوع، باب بيع الميتة والأصنام، 2: 779، رقم: 2121،ط: دار ابن کثير اليمامة)

عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"وقال المهلب: كره أهل العلم ذلك إلا للضرورة بشرطين: أحدهما: أن يكون عمله فيما يحل للمسلم، والآخر: أن لا يعينه على ما هو ضرر على المسلمين."

(كتاب الإجارة، باب هل يؤاجر الرجل نفسه من مشرك في أرض الحرب، ج:12، ص:94، ط: دار إحياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102746

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں