1۔ مسجد میں کال کرنے کیلئے سمارٹ فون استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
2 ۔ مسجد کی حدود میں فیس بک ، یوٹیوب ،ٹک ٹاک، انسٹاگرام، کا استعمال کرنا،اور اسی طرح موبائل میں لڈوکھیلنا جائز ہے یا نہیں؟ خاص کر ایسی مساجد میں جہاں پر درس وتدریس کی کلاسیں ہوں اور دینی کتابیں بھی ہوں جب کہ یہ تمام چیزیں فحاشی و عریانی کے اڈّے ہیں اور خاص کر کرکٹ کا میچ اور ارطغرل کا ترکی ڈرامہ دیکھنا جس میں اکثریت نامحرم عورتوں کی ہوتی ہے ؟
3 ۔ بوقت ضرورت واٹس ایپ کا استعمال کرنا جب کہ اس کا استعمال بھی ضرورت کی حد تک ہو ،جائز ہے یا نہیں؟
4۔موبائل میں قرآن مجید کی تلاوت اورمطالعہ کرنے کی گنجائش ہے یا نہیں ؟
1۔ صورتِ مسئولہ میں اگر مسجد میں کوئی ضروری فون آجائے تو فون پر بات کرناجائز ہے، لیکن بقدرِ ضرورت بات بالکل آہستہ آواز سے کی جائے ۔
2۔مسجد میں فیس بک،یوٹیوب ،ٹک ٹاک، انسٹاگرام وغیرہ کےاستعمال میں اگر جان دار کی تصاویر ،ویڈیو، وغیرہ دیکھنا پایا جائےتو مسجد کے تقدس کی پامالی اور بے حرمتی ہونے کے ساتھ ساتھ یہ مستقل گناہ بھی ہوگا۔لہذا مسجد اور غیر مسجد دونوں میں اس سے اجتناب ضروری ہے،نیز مسجد چوں کہ عبادت کی جگہ ہے، کھیل کود کی جگہ نہیں ہے،لہذا اگرمسجد میں لڈو کھیلا جائے تو اس میں وقت کا ضیاع بھی ہے اور مسجد کے تقدس کی پامالی اور بے حرمتی بھی ہے،لہذا اس سے مکمل طور پر اجتناب ضروری ہے۔
3۔واٹس ایپ کے ذریعہ پیغامات کی ترسیل اور رابطہ قائم کرنا جائز ہے،بشرطیکہ جاندار کی تصاویر،ویڈیوز،موسیقی اور غیر اخلاقی امور میں استعمال نہ کیا جائے۔
4۔قرآنِ مجید مصحف میں دیکھ کر پڑھنا افضل ہے، اس لیے مصحف کو دیکھنا، اس کو چھونا اور اس کو اٹھانا یہ اس کا احترام ہے، اور اس میں معانی میں زیادہ تدبر کا موقع ملتا ہے،ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں موبائل میں مکمل طور پر حاصل نہیں ہوتیں، اس لیے جہاں تک ہوسکے مصحف ہی سے پڑھا جائے، اگر کبھی ضرورت ہو تو موبائل سے پڑھ لیں،اگر اسکرین پر قرآن کریم کھلا ہوا ہو تو بے وضو موبائل کو مختلف اطراف سے چھونا اور پکڑنا بھی جائز ہے، البتہ اسکرین کو بغیر وضو چھونا جائز نہیں ہے؛کیوں کہ جس وقت قرآنِ کریم اسکرین پر کھلا ہوا ہوتا ہے اس وقت اسکرین کو چھونا قرآن کو چھونے کے حکم میں ہوتا ہے،اسی طرح موبائل پر دینی کتب کا مطالعہ کرنا جائز ہے،موبائل میں دینی کتاب اسکرین پر کھلی ہو اور اس میں سامنے قرآنی آیت نہ ہو تو بلاوضو چھونامکروہ ہے اور اگر سامنے قرآنی آیت ہو تو اس صورت میں بلاوضو چھونا ناجائز ہوگا۔
مشكاة المصابيح میں ہے:
"عن عبد الله بن مسعود قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: أشد الناس عذاباً عند الله المصورون."
( كتاب اللباس، باب التصاوير، 1274/2، ط: المكتب الإسلامي )
ترجمہ:’’ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریمﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت ترین عذاب کا مستوجب، مصور (تصویر بنانے والا)ہے۔‘‘
( مظاہر حق جدید ، 230/4، ط: دارالاشاعت )
شعب الایمان للبیہقی میں ہے:
"قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يأتي على الناس زمان يكون حديثهم في مساجدهم في أمر دنياهم، فلا تجالسوهم، فليس لله فيهم حاجة."
ترجمہ:’’لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ مساجد میں دنیا کی باتیں کریں گے، تم ان کے ساتھ مت بیٹھنا اللہ تعالی کو ان کی کچھ پرواہ نہیں۔‘‘
( الصلاۃ، فصل المشي الی المساجد، 387/4، ط : مکتبة الرشد )
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"الجلوس في المسجد للحديث لايباح بالاتفاق؛ لأن المسجد ما بني لأمور الدنيا، وفي خزانة الفقه ما يدل على أن الكلام المباح من حديث الدنيا في المسجد حرام. قال: و لايتكلم بكلام الدنيا، و في صلاة الجلابي الكلام المباح من حديث الدنيا يجوز في المساجد، و إن كان الأولى أن يشتغل بذكر الله تعالى."
( کتاب الکراهية، الباب الخامس فی آداب المسجد و القبلة و المصحف وما کتب فیه شیء من القرآن، 321/5، ط: رشيدية)
وفیہ ایضاً:
"رجل أراد أن يقرأ القرآن فينبغي أن يكون على أحسن أحواله يلبس صالح ثيابه ويتعمم ويستقبل القبلة؛ لأن تعظيم القرآن والفقه واجب، كذا في فتاوى قاضي خان ... لا بأس بقراءة القرآن إذا وضع جنبه على الأرض ولكن ينبغي أن يضم رجليه عند القراءة، كذا في المحيط. لا بأس بالقراءة مضطجعا إذا أخرج رأسه من اللحاف؛ لأنه يكون كاللبس وإلا فلا، كذا في القنية."
( کتاب الکراهية، الباب الرابع، 316/5، ط: رشیدیة )
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله:والتفسیرکمصحف ) ظاهره حرمة المس کماهو مقتضی التشبیه، وفیه نظر؛ إذ لا نص فیه بخلاف المصحف، فالمناسب التعبیر بالکراهة، کماعبرغیره. ( قوله: لا الکتب الشرعیة) قال في الخلاصة: ویکره مس المصحف کما یکره للجنب، وکذلك کتب الأحادیث والفقه عندهما، والأصح أنه لایکره عنده هـ. قال في شرح المنیة: وجه قوله: إنه لایسمی ماساً للقرآن؛ لأن ما فیها منه بمنزلة التابع ا هـ. ومشى في الفتح على الكراهة، فقال: قالوا: يكره مس كتب التفسير والفقه والسنن؛ لأنها لاتخلو عن آيات القرآن، وهذا التعليل يمنع من شروح النحو ا هـ. (قوله:لكن في الأشباه الخ ) استدراك على قوله: التفسير كمصحف، فإن ما في الأشباه صريح في جواز مس التفسير، فهو كسائر الكتب الشرعية، بل ظاهره أنه قول أصحابنا جميعاً وقد صرح بجوازه أيضاً في شرح درر البحار.
وفي السراج عن الإيضاح: أن كتب التفسير لايجوز مس موضع القرآن، وله أن يمس غيره، وكذا كتب الفقه إذا كان فيها شيء من القرآن، بخلاف المصحف؛ فإن الكل فيه تبع للقرآن."
( کتاب الطھارۃ، سنن الغسل، 176/1، ط: سعید )
وفیہ ایضاً:
"(و) يحرم (به) أي بالأكبر (وبالأصغر) مس مصحف: أي ما فيه آية كدرهم وجدار، وهل مس نحو التوراة كذلك؟ ظاهر كلامهم لا (إلا بغلاف متجاف) غير مشرزأو بصرة به يفتى. (قوله: أي ما فيه آية إلخ) أي المراد مطلق ما كتب فيه قرآن مجازا، من إطلاق اسم الكل على الجزء، أو من باب الإطلاق والتقييد. قال ح: لكن لا يحرم في غير المصحف إلا بالمكتوب: أي موضع الكتابة كذا في باب الحيض من البحر، وقيد بالآية؛ لأنه لو كتب ما دونها لا يكره مسه كما في حيض القهستاني. وينبغي أن يجري هنا ما جرى في قراءة ما دون آية من الخلاف، والتفصيل المارين هناك بالأولى؛ لأن المس يحرم بالحدث ولو أصغر، بخلاف القراءة فكانت دونه تأمل."
(کتاب الطھارۃ، سنن الغسل، 173/1، ط: سعید )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606100728
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن