بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی دکانوں کی آمدنی کو مدرسے میں استعمال کرنے کا حکم


سوال

ہمارے علاقے کی جامع مکہ مسجد ایریا ۳۶ سی کورنگی ۵ کی جو زمین ہے وہ گورنمنٹ کی جانب سے اہل محلہ کے لیے مسجد کے لیے الاٹ کی گئی ہے، اور اس کے چاروں اطراف میں دکانیں تعمیر کی گئی ہیں جو کہ مسجد کی ملکیت ہیں، اور دکانوں کے کرایے سے ہی مسجد کے اخراجات اٹھایے جاتے ہیں، اور مسجد کے احاطے میں کسی نے دو کمروں پر مشتمل ایک مدرسہ بنایا تھاجس میں بچوں کو قاعدہ و ناظرہ وغیرہ پڑھایا جاتا تھا، اور اس کے اخراجات وغیرہ  کابھی وہاں کے استاد خود ہی بندوبست کرتے تھے، اس کا مسجد سے کوئی تعلق نہیں تھا، اور نہ ہی مسجد سے اس کے خراجات اٹھاتے تھے، کچھ عرصہ بعد پرانی دکانوں کو توڑ کر دکان داروں سے ایڈوانس لے کرپکی دکانیں بنادی گئیں، پھر انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ ان دکانوں کے اوپر مدرسہ بنادیا جائے، تو اس طرح پرانے مدرسے کو ختم کرکے دکانوں کے اوپر مدرسہ بنا دیا گیا، لیکن دکانیں مکمل طور پر مسجد کی ملکیت ہیں، اور دکانوں کا کرایہ بھی مسجد میں ہی آتا ہے، اور مسجد اور مدرسہ دونوں کے علیحدہ علیحدہ ٹرسٹ بنائے گئے ہیں، اور دونوں کی کمیٹیاں بھی الگ الگ ہیں، لیکن دونوں کمیٹیوں کا صدر ایک ہی فرد ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ:

1-دوکانوں کا کرایہ جو کہ مسجد کی ملکیت ہے وہ مدرسے کے طالب علموں پر یا مدرسین کی تنخواہوں وغیرہ پر خرچ کر سکتے ہیں یا نہیں؟

2- ان دونوں کمیٹیوں کا صدر ایک فرد ہو سکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ واقف (وقف کرنے والا) جس مد (مثلا مسجد) میں اپنا مال و جائیداد  وقف کرے، تو  مالِ موقوف کو اس کے علاوہ کسی بھی مد میں صرف کرنا شرعا جائز نہیں ہے، مسجد اور مدرسہ وقف کی دو مختلف جہتیں ہیں، لہذا کسی ایک کے لیے وقف شدہ مال دوسرے میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

1-صورتِ مسئولہ میں چوں کے زمین مسجد کے لیے وقف کی گئی تھی، اور اس پر قائم کی گئی دکانیں بھی مسجد ہی کی ملکیت ہیں، لہذا ان دکانوں کی آمدنی مدرسہ کی مد میں استعمال کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔

2-صورتِ مسئولہ میں دو مختلف کمیٹیوں کا صدر ایک فرد  کو بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(اتحد الواقف والجهة وقل مرسوم بعض الموقوف عليه) بسبب خراب وقف أحدهما (جاز للحاكم أن يصرف من فاضل الوقف الآخر عليه) لأنهما حينئذ كشيء واحد، (وإن اختلف أحدهما) بأن بنى رجلان مسجدين أو رجل مسجدا ومدرسة ووقف عليهما أوقافا (لا) يجوز له ذلك.

(قوله: اتحد الواقف والجهة) بأن وقف وقفين على المسجد أحدهما على العمارة والآخر إلى إمامه أو مؤذنه والإمام والمؤذن لا يستقر لقلة المرسوم للحاكم الدين أن يصرف من فاضل وقف المصالح، والعمارة إلى الإمام والمؤذن باستصواب أهل الصلاح من أهل المحلة إن كان الوقف متحدا لأن غرضه إحياء وقفه، وذلك يحصل بما قلنا عن البزازية وظاهره اختصاص ذلك بالقاضي دون الناظر."

(کتاب الوقف، ج:4، ص:360، ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"في البزازية وقد تقرر في فتاوى خوارزم أن الواقف ومحل الوقف أعني الجهة إن اتحدت بأن كان وقفا على المسجد أحدهما إلى العمارة والآخر إلى إمامه أو مؤذنه والإمام والمؤذن لا يستقر لقلة المرسوم للحاكم الدين أن يصرف من فاضل وقف المصالح والعمارة إلى الإمام والمؤذن باستصواب أهل الصلاح من أهل المحلة إن كان الواقف متحدا لأن غرض الواقف إحياء وقفه وذلك يحصل بما قلنا أما إذا اختلف الواقف أو ‌اتحد ‌الواقف واختلفت الجهة بأن بنى مدرسة ومسجدا وعين لكل وقفا وفضل من غلة أحدهما لا يبدل شرط الواقف."

(کتاب الوقف، وقف المسجد ایجون ان یبنی من غلتہ منارہ، ج:5، ص:233، ط:دار الکتاب الاسلامی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"مراعاة ‌غرض ‌الواقفين واجبة."

(کتاب الوقف، مطلب: فی المصادقہ علی النظر، ج:4، ص:445، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101210

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں