بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں نماز پڑھنے کی حکمت


سوال

مسجد میں نماز پڑھنا کیوں ضروری ہے؟ معاشرے کے حالات سے خبردار ہونے کے لیے یا کوئی اور وجہ ہے؟

جواب

تمام عبادات میں نماز سے زیادہ عظیم الشان اور عظیم البرہان کوئی عبادت نہیں، یہ عبادت مسلمانوں کے لیے باعث فخر اور عزت ہے، شریعتِ مطہرہ میں پنج وقتہ نماز باجماعت مشروع کی گئی ہے، سب سے پہلے حضرت جبریل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت فرمائی؛ تا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کا طریقہ معلوم ہو جائے، نیز جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اداءِ کامل ہے اور بلا جماعت نماز پڑھنا اداءِ قاصر ہے؛ اِس لیے اس عبادت کو مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھنے کا حکم کیا گیا؛

تا كہ نماز کا مہتم بالشان ہونا معلوم ہو اور دنیا میں ہر اہم چیز کے لیے جمع ہونا ایک امرِ معقولی ہے۔

تا كہ کوئی اس عبادت کو چھوڑ نہ سکے، ضعیف الایمان لوگ گھروں میں نمازوں میں کاہلی نہ کرنے لگیں۔

تا كہ ناواقف مسلمان جاننے والوں سے مسائل اور دین سیکھ سکیں۔

تا كہ کسی کی نماز میں کوئی منکَر (قابلِ انکار یا غلط چیز شامل) ہو تو اس کو دور کیا جا سکے۔

تا كہ مسلمانوں کا اجتماع اجتماعی صورت میں دعا مانگے کہ مسلمانوں کے اجتماع کو برکات کے نازل ہونے اور رحمت کے نزول میں ایک عجیب خاصیت ہے۔

تا كہ  دنیا میں امتِ محمدیہ (علی صاحبہا الصلوۃ والسلام)، مسلمانوں اور اسلام کا بول بالا ہو، اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب جمعہ اور جماعتوں میں مسلمانوں کی بڑی تعداد موجود ہو، اس طرح اہل کفر پر رعب و غلبہ کا احساس ہو گا۔

یہ چند حکمتیں شاہ ولی  اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی کتاب "حجۃ اللہ البالغۃ" سے نقل کی گئی ہیں، ممکن ہے کہ اس کے علاوہ بھی کئی حکمتیں ہوں، جو باری تعالیٰ کے علم میں ہوں، انسانِ بے بس کے لیے اُن  کا احصاء اور احاطہ ممکن نہیں۔

حجۃ اللہ البالغہ میں ہے:

"اعلم أنه لا شيء أنفع من غائلة الرسوم من أن يجعل شيء من الطاعات رسما فاشيا يؤدي على رءوس الخامل والنبيه، ويستوي فيه الحاضر والباد، ويجرى فيه التفاخر والتباهي، حتى تدخل في الارتفاقات الضرورية التي لا يمكن لهم أن يتركوها، ولا أن يهملوها لتصير مؤيدا لعبادة الله، والسنة تدعو إلى الحق، ويكون الذي يخاف منه الضرر هو الذي يجلبهم إلى الحق.

ولا شيء من الطاعات أتم شأنا ولا أعظم برهانا من الصلاة، فوجب إشاعتها فيما بينهم والاجتماع لها، وموافقة الناس فيها.

وأيضا فالملة تجمع ناسا علماء يقتدى بهم، وناسا يحتاجون في تحصل إحسانهم إلى دعوة حثيثة، وناسا ضعفاء البنية ولو لم يكلفوا أن يؤدوا على أعين الناس تهاونوا فيها. فلا أنفع ولا أوفق بالمصلحة في حق هؤلاء جميعا أن يكلفوا أن يطيعوا الله على أعين الناس ليتميز فاعلها من تاركها، وراغبها من الزاهد فيها، ويقتدي بعالمها، ويعلم جاهلها، وتكون طاعة الله فيهم كسبيكة تعرض على طائف الناس، ينكر منها المنكر، ويعرف منها المعروف، ويرى غشها وخالصها.

وأيضا فلاجتماع المسلمين راغبين في الله، راجين راهبين منه، مسلمين وجوههم إليه - خاصية عجيبة في نزول البركات وتدلي الرحمة كما بينا في الاستسقاء. والحج.

وأيضا فمراد الله من نصب هذه الأمة أن تكون كلمة الله هي العليا، وألا يكون في الأرض دين أعلى من الإسلام، ولا يتصور ذلك إلا بأن يكون سنتهم أن يجتمع خاصتهم وعامتهم، وحاضرهم وباديهم، وصغيرهم وكبيرهم، لما هو أعظم شعائره وأشهر طاعاته.

فلهذه المعاني انصرفت العناية التشريعية إلى شرع الجمعة والجماعات، والترغيب فيها وتغليظ النهي عن تركها."

(بحث الجماعۃ، جلد:2، صفحہ: 39، طبع:دار الجيل، بيروت)

التلويح علي التوضيح" ميں ہے:

"والأداء إما كامل، وهو أن يؤدى بالوصف الذي شرع كالجماعة أو قاصر إن لم يكن به كصلاة المنفرد."

(القسم الاول، الركن الاول، الباب الثاني، جلد:1، صفحه:318، طبع: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100387

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں