بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں تھوک دان رکھنا اور مسجد میں سونا


سوال

‎ مسجد میں تھوک دان یا ڈسٹ بِن  رکھنا جائز ہے ؟ اور مسجد میں سونا جائز ہے؟  یعنی کوئی  مہمان آۓ تو اکثر دیہاتوں میں مسجد میں سوتے ہیں،  شرعاً اس کا کیا حکم ہے ؟ اور گناہ گاری کس حد تک  ہے ؟

جواب

مساجد زمین پر اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں، اِن کو خوب صاف اور پاک رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، مسجد میں تھوک دان یا ڈسٹ بن رکھنا مسجد کے آداب کے خلاف ہے، اس کی وجہ سے مسجد میں گندگی اور بدبو پیدا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے، اس لیے مسجد کو ان چیزوں سے بچانا چاہیے، ہاں! اگر مسجد کی حدود سے باہر یہ چیزیں رکھی جائیں اور ضرورت کے وقت ان کا استعمال کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اسی طرح اگر کوئی نمازی عمر رسیدہ  یا مریض ہوں اور  اُن کو کثرت سے تھوک پھیکنے کی حاجت پیش آتی ہو اور مسجد کے وضو خانہ یا مسجد سے باہر جانے میں تکلیف ہوتی ہو تو ایسی مجبوری کی صورت میں تھوک دان رکھنے کی اجازت ہو گی، لیکن اس میں بھی یہ خیال رہے کہ اس کو مسجد میں مستقل طور پر نہ چھوڑا جائے،  بلکہ ضرورت کے وقت لایا جائے،  پھر مسجد سے باہر لے جایا جائے۔

پھر مسجد میں سونے سے متعلق حکم یہ ہے کہ  مسافر اور معتکف کے لیے مسجد میں کھانے ، پینے اور سونے کی گنجائش ہے،  مسافر اور معتکف کے علاوہ افراد کے لیے مسجد میں کھانا ، پینا اور سونا مکروہ ہے؛ کیوں کہ  مسجد بنانے کا مقصد ذکراللہ اور عبادتِ الہٰی  ہے، اس طرح کے کاموں کے لیے نہیں، اس لیے عام حالات میں تو وہی حکم ہے جو اوپر مذکور ہے، البتہ بامر مجبوری کسی کو مسجد میں سونا پڑتا ہے تو مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اس کی گنجائش ہوگی:

 مسجد کے آداب کا پورا لحاظ رکھے کہ شور و غوغا ، ہنسی مذاق اور لا یعنی گفتگو سے پرہیز کرے، صفائی کا پورا اہتمام رکھے اور اعتکاف کی نیت کر لے۔ 

نمازیوں کو اس سے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے ، اذان ہوتے ہی اٹھ جائے اور بعد میں بھی نمازیوں کے سنن و نوافل یا ذکر و تلاوت وغیرہ میں مشغول رہنے تک ان کی عبادت میں خلل نہ ڈالے۔

اگر طلبہ ہوں تو  باریش یا کم از کم آداب ِ مسجد سے واقف اور باشعور ہوں، کم سن بے شعود بچوں کو مسجد میں سلانا جائز نہیں ۔

معتکف اور ایسا مسافر جس کا کہیں ٹھکانہ نہ ہو، اس کا مسجد میں سونا درست ہے، اور تبلیغی جماعت والے اگر صفائی اور مسجد کے ادب واحترام کا لحاظ رکھیں تو اُن کے لیے بھی مسجد میں سونے کی گنجائش ہے۔

نیز اگر مسجد میں سونے کی ضرورت پیش آئے تو  اپنا کپڑا یا بستر بچھاکر سونا چاہیے، تاکہ اگر احتلام ہوجائے تو مسجد کی چٹائی اور فرش ناپاک نہ ہو۔ اور جب احتلام کی صورت پیش آجائے تو احتیاط کے ساتھ جلد از جلد مسجد سے نکل جائے۔ اور اگر خدا نخواستہ مسجد کی جگہ ناپاک ہوجائے، تو غسل سے واپس آکر فوراً وہ جگہ پاک کرنے کا اہتمام کرے۔

خلاصہ یہ ہے کہ غیرمعتکف و غیر مسافر کا مسجد میں سونا مکروہ ہے، جو حضرات نماز یا کسی دوسری عبادت کے لیے  مسجد میں جائیں وہ اِعتکاف کی نیت کرلیا کریں، اس کے بعد نماز و دیگر اعمال سے فارغ ہوکر اگر کچھ دیر وہاں سونا چاہیں تو اس کی گنجائش ہوگی، بشرطیکہ مندرجہ بالا شرائط کی پابندی کریں۔البتہ  مسجد میں سونے سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200853

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں