بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں داخل ہو کر سلام کرنا


سوال

اگر کوئی  شخص مسجد میں داخل ہو اور لوگوں کو بلند آواز سے سلام کرے یا امام صاحب آتے ہوۓ بلند آواز سے سلام کرے تو ایسا کرنا قران و سنت کی روشنی میں جائز ہے؟

جواب

مسجد میں داخل ہوتے وقت سلام کرنا  چاہیے، بشرط یہ کہ لوگ بیٹھے ہوئے ہوں ۔ تلاوت یا درس وغیرہ میں مشغول نہ ہوں ۔ اور اگر مشغول ہوں تو منع  ہے ، اگر مسجد میں کوئی نہ ہویا نماز  پڑھتے ہوں اور وہ  نہ سن سکیں تو  اس صورت میں کہنا  چاہیے، "السلام علینا من ربنا وعلىٰ عباد  اللّٰه الصالحین "۔ (فتاوی رحیمیہ)

یہ حکم عام آدمی اور امام دونوں کے لیے یک ساں ہے، نیز عام طور پر امام جس وقت نماز کے لیے آکر سلام کرتاہے، اس وقت لوگ  نماز، تلاوت یا درس وغیرہ میں مشغول نہیں ہوتے۔

الفتاوى الهندية (5/ 325):

"السلام تحية الزائرين، والذين جلسوا في المسجد للقراءة والتسبيح أو لانتظار الصلاة ما جلسوا فيه لدخول الزائرين عليهم، فليس هذا أوان السلام فلا يسلم عليهم، ولهذا قالوا: لو سلم عليهم الداخل وسعهم أن لايجيبوه، كذا في القنية.

يكره السلام عند قراءة القرآن جهراً، وكذا عند مذاكرة العلم، وعند الأذان والإقامة، والصحيح أنه لايرد في هذه المواضع أيضاً، كذا في الغياثية."

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

" مسجد میں داخل ہونے کی دُعا پڑھنی  چاہیے، پھر اگر لوگ فارغ بیٹھے ہوں تو ان کو آہستہ سے سلام کہا جائے، اور اگر سب مشغول ہوں تو نہ کہے، اتنی زور سے سلام کرنا کہ نمازیوں کی نماز میں خلل پڑے، صحیح نہیں۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200904

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں