بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کو گرانا جائز نہیں


سوال

 میرا سوال یہ ہے کہ جان بوجھ کر مسجد کو گرانے والے سے متعلق اسلامی حکم کیا ہے؟ شریعت کیا کہتی ہےاس بندے کے متعلق جو مسجد کو گرا دے توہین کرے اور مسجد گرا کر وہاں کوئی اور چیز تعمیر کرے؟

جواب

واضح رہے  جواب سے پہلے کچھ تمہیدی باتوں کا جاننا ضروری ہے:

1۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے اور "ریاستِ مدینہ" وجود میں آئی  تو وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےسب سے پہلے مسجد کے قیام کا فیصلہ فرمایا، اس لئے کہ ایک مسلم معاشرے میں مسجد اور مسجد کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوا کرتا ہے،مسجد مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور یہ اسلامی معاشرے کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔  قرآن کریم اور ارشادات نبویہ میں مساجد کی اس  اہمیت و عظمت  اور تقدس کو واضح کیا گیا ہے اور اس کو شعائرِ اسلام میں  سے اہم شعار شمار کیا گیا۔

2۔ قرآنِ کریم  اور احادیثِ نبویہ میں تعمیرِ مسجد  کو ایمان اور  اہل ایمان کی علامت اور  شان کے طور پر بیان کیا گیا اور تعمیر کرنے والوں اور آباد کرنے والوں کو خوشخبری دی گئی، اس کے بر خلاف مسجد کو ویران کرنے، لوگوں کو مسجد میں آنے سے روکنے اور  مسجد کو تخریب کرنے اور اس برے  کام میں  شریک بننے والوں کے لئے درد ناک عذاب کی وعید بتائی گئی۔

3۔ مسجد کی تعمیر اور پہلے سے موجود مساجد کی بقاء و استحکام حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں سے ہے، اگر حکومتِ وقت اس ذمہ داری کو نہیں اٹھاتی اور اس میں کوتاہی کرتی ہے تو پھر عام مسلمانوں پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ  اپنی دینی ضرورت کے پیشِ نظرمسجد کی تعمیر ،اس کی تولیت و انتظام اور اس کے متعلقہ  جملہ امور کی ذمہ داری اٹھائیں۔

جو جگہ علاقے کے لوگوں کی ضرورتوں کے لیے خالی پڑی ہو، وہاں اہلِ علاقہ کی رضامندی سے مسجد بنانا  جائز ہے اورحکومت کا فرض ہے کہ لوگوں کی ضرورت کے مدِ نظر وہاں مسجد بنوائے۔

5۔ اگر کسی علاقے میں مسجد کی ضرورت ہو، اور وہاں ایسی خالی زمین ہو جو کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو، بلکہ مصالحِ عوام کے لیے ہو، اس جگہ مسجد بنانا جائز ہے اور ایسی مسجد میں نماز پڑھنا بھی جائز  اور اجر و ثواب کا باعث ہے، مسلمانوں کے لیے نماز اور اس کے انتظام سے بڑھ کر کوئی مصلحت نہیں ہوسکتی، کیوں کہ یہ ہدایت اور رحمت کا مرکز ہے۔

6۔ اگر کسی علاقے میں مسجد کی ضرورت ہو اور اہلِ علاقہ کسی خالی سرکاری زمین پر  حکومت کے متعلقہ اداروں  کی اجازت سے  مسجد تعمیر کریں، اور  تعمیر کے بعد اس  میں باقاعدہ پنج وقتہ نمازیں   و نمازِ  جمعہ ادا کی جاتی رہیں اور طویل عرصہ تک حکومت کی طرف سے ان مساجد کے قیام و تعمیر پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا گیا  تو یہ حکومت کی طرف سے   اجازت سمجھی جائے گی اور  ایسی تمام مساجد، شرعی مسجد ہیں، ان کو توڑنا جائز نہیں ، بلکہ ادب و احترام کرنا لازم ہے ۔

7۔ جو جگہ ایک دفعہ مسجد ِ شرعی بن جاتی ہے  تو پھر قیامت تک کے لئے اس کی مسجد کی حیثیت قائم رہتی ہے،  اس لئے کہ وہ اللہ کی ملکیت میں چلی جاتی ہے اور اللہ کی ملکیت میں جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جگہ اب  اللہ کی عبادت کے لئے مخصوص ہوچکی ہے، اور قیامت تک اس کا کوئی مالک نہیں ہوسکتااور اس کو کوئی  ختم نہیں کرسکتا، اس  کی ایک انچ برابر جگہ کو گرانا یا اس کی   حیثیت بدلنا اور اس کو پارک وغیرہ بناناشرعاً ناجائز ہے۔ یہی تمام مسالک کے علماء  و فقہاء  کا متفقہ مؤقف ہے۔

8۔ ایک مسلمان کے لئے بحیثیت مسلمان کسی طور پر یہ جائز نہیں کہ وہ شرعی احکامات  سے رُو گردانی کرے اور شعائر اللہ کے مقابلے میں دنیاوی قانون کو ترجیح دے۔

  صورتِ مسئولہ میں مساجد شعائر اسلام اور مسلمانوں کی ضروریات میں سے ہیں مساجد کوگرانا اور اس کی جگہ کوئی اور چیز تعمیر کرنا  ناجائز ہے شریعت کسی صورت  مسجد کو منہدم کر نے اور اسکی  تخریب  کی اجازت نہیں دیتی اس لئے کہ مساجد اللہ تبارک وتعالی کے گھر ہیں اس میں اللہ تبارک وتعالی کی عبادت کی جاتی ہے   جب ایک دفعہ مسجد  بن جائے تو قیامت تک کے لئے مسجد ہی رہتی ہے  اس جگہ کوئی اور  چیز تعمیر نہیں کروا سکتے  لہذا  جوشخص مسجد کو گراتا ہے  اپنے اس  عمل سے  اللہ تبارک وتعالی کے غصہ کو دعوت دینا ہے  اور اپنی دنیا آخرت کو تباہ کرنا ہے  اور ایسےشخص (جو مساجد کو منہدم کر نے والے ہو )کو بڑا ظالم قرار دیا گیا ہے ۔

باری تعالی کا ارشاد ہے : 

"وَمَنۡ أَظۡلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَٰجِدَ ٱللَّهِ أَن يُذۡكَرَ فِيهَا ٱسۡمُهُۥ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَآۚ أُوْلَٰٓئِكَ مَا كَانَ لَهُمۡ أَن يَدۡخُلُوهَآ إِلَّا خَآئِفِينَۚ لَهُمۡ فِي ٱلدُّنۡيَا خِزۡيٞ وَلَهُمۡ فِي ٱلۡأٓخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيم."

(البقرہ114)

ترجمہ:"اور اس شخص سے زیادہ اور کو ن ظالم ہو گا جو خدا تعالی کی مسجدوں میں  ان کا ذکر (اور عبادت) کیے جانے سے بندش کرے اور ان کے ویران (ومعطل)ہو نے (کے بارے ) میں کوشش کرے "۔(بیان القرآن )

قرآن کریم میں ارشاد ہے:

"الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عاقِبَةُ الْأُمُورِ."

( الحج:41)

ترجمہ:"یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں، اور زکوۃ ادا کریں، اور لوگوں کو نیکی کی تاکید کریں، اور برائی سے روکیں،اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضے میں ہے۔"

دوسری جگہ ارشاد ہے:

"إِنَّما يَعْمُرُ مَساجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَاّ اللَّهَ فَعَسى أُولئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ ( التوبة: 18)"

ترجمه:  ”اللہ کی مسجدوں کو تو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے ہوں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں۔ ایسے ہی لوگوں سے یہ توقع ہوسکتی ہے کہ وہ صحیح راستہ اختیار کرنے والوں میں شامل ہوں گے۔ “

اس آیت سے معلوم ہورہا ہے کہ مساجد کو تعمیر اور ان کو آباد کرنااللہ کی عبادت اور ذکر سے یہ ایمان کی علامت ہے، چنانچہ اس آیت  کے ذیل میں مفسرِ کبیر علامہ قرطبی رحمہ اللہ اپنی تفسیر" الجامع لاحکام القرآن"میں تحریر فرماتے ہیں:

"قوله تعالى:" إنما يعمر مساجد الله" دليل على أن الشهادة لعمار المساجد بالإيمان صحيحة لأن الله سبحانه ربطه بها وأخبر عنه بملازمتها. وقد قال بعض السلف: إذا رأيتم الرجل يعمر المسجد فحسنوا به الظن. وروى الترمذي عن أبي سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: قال (إذا رأيتم الرجل يعتاد المسجد فاشهدوا له بالإيمان) قال الله تعالى:" إنما يعمر مساجد الله من آمن بالله واليوم الآخر". وفي رواية: (يتعاهد المسجد). قال: حديث حسن غريب."

(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، التوبة، تحت الآیة:18، 90/8، دارالکتب المصریة،قاہرۃ،  والجامع السنن للترمذی، ابواب التفسیر، ‌‌باب: ومن سورة التوبة، رقم الحدیث: 3093)

ترجمہ:"آیت کریمہ اس امر پر دلیل ہے کہ مساجد کی تعمیر کرنے والوں کے ایمان کی شہادت صحیح اور درست ہے، اسی لئے بعض سلف کا قول ہے کہ جب تم دیکھو کہ کوئی شخص مسجد کی آباد کاری میں کوشاں ہو تو اس کے ساتھ حسنِ ظن رکھو۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی یہ روایت بیان کی ہے کہ  رسول ِ کریم صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :((جب تم   دیکھو کہ کوئی شخص مسجد آتا رہتا ہے ( اور دوسری روایت میں ہے کہ )یا مسجد کی دیکھ بھال کرتا ہے تو اس کے ایمان کی گواہی دو))۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: إنما يعمر مساجد الله من آمن بالله واليوم الآخر."( التوبة: 18)"

البحر الرائق میں ہے:

"أشار بإطلاق قوله: و يأذن للناس في الصلاة أنه لايشترط أن يقول: أذنت فيه بالصلاة جماعة أبداً، بل الإطلاق كاف ... و قد رأينا ببخارى و غيرها في دور سكك في أزقة غير نافذة من غير شك الأئمة و العوام في كونها مساجد ... بني في فنائه في الرستاق دكاناً لأجل الصلاة يصلون فيه بجماعة كل وقت فله حكم المسجد".

(كتاب الوقف، فصل في أحكام المساجد، ٥/ ٢٤١ - ٢٥٠، ط: رشيدية)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"( ولو خرب ما حوله و استغني عنه يبقي مسجداً عند الإمام و الثاني) أبداً إلى قيام الساعة (و به يفتي)، حاوي القدسي".

(شامي، كتاب الوقف، مطلب في وجوب المسجد و غيره، ٤/ ٣٥٨، ط: سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"و إن بني للمسلمين كمسجد و نحوه... لاينقض".

(٦/ ٥٩٣، ط: سعيد)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102402

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں