کیا مسجد انتظامیہ کا عام عوام کو مسجد سے پینے کا پانی بھرنے سے روکنا جائز ہے ؟ ہماری مسجد والے دوکاندار حضرات کو مسجد سے پانی کا کولر وغیرہ نہیں بھرنے دیتے کہ بجلی بل زیادہ آ تا ہے۔
مسجد کے پانی میں واقف کی شرط کا اعتبار ہے، اگر پانی کا انتظام کرنے والے واقف یا مسجد کمیٹی کی جانب سے پانی صرف مسجد کے لیے ہو اور اس کو باہر لے جانے کی اجازت نہ ہو تو اس کا مسجد سے باہر لے جانا اور ذاتی استعمال کرنادرست نہیں۔ اور اگر واقف اور مسجد کمیٹی کی جا نب سے اس کی اجازت ہو کہ ذاتی استعمال بھی کیا جاسکتا ہے تو مسجد کا پانی دوسری جگہ لے جانا بھی درست ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اجازت کی صورت میں بھی بوقتِ ضرورت پانی استعمال کیا جائے تو بھی عرفی قیمت کے مطابق اس کے پیسے مسجد کے چندے میں دے دیے جائیں۔
الفتاوى الهندية میں ہے:
"شرب الماء من السقاية جائز للغني والفقير، كذا في الخلاصة. ويكره رفع الجرة من السقاية وحملها إلى منزله؛ لأنه وضع للشرب لا للحمل، كذا في محيط السرخسي. وحمل ماء السقاية إلى أهله إن كان مأذونا للحمل يجوز وإلا فلا، كذا في الوجيز للكردري في المتفرقات."
(الفتاوى الهندية ،کتاب الکراھیۃ،الباب الحادي عشر في الكراھة في الأكل وما يتصل به،(5/ 341) ط:دارالفکربیروت)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة."
(كتاب الوقف، مطلب في المصادقة على النظر، ج:4، ص: 445، ط: سعيد)
وایضا فیہ:
"اعلم أن أسباب الملك ثلاثة: ناقل كبيع وهبة وخلافة كإرث وأصالة، وهو الاستيلاء حقيقة بوضع اليد أو حكما بالتهيئة كنصب الصيد."
(كتاب الصيد، ج:6، ص:463، ط: سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"متولي المسجد لیس له أن یحمل سراج المسجد إلی بیته وله أن یحمله من البیت إلی المسجد، کذا في فتاوی قاضي خان."
(كتاب الوقف، الباب الحادي عشر في المسجد وما يتعلق به وفيه فصلان، الفصل الثاني في الوقف وتصرف القيم وغيره في مال الوقف عليه، ج:2، ص:462، ط: رشيدية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503102709
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن