بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مصافحہ اورمعانقہ کاحکم


سوال

 کسی سے مصافحہ اور معانقہ کرنا کیسا ہے؟

جواب

سلام کرتے وقت مصافحہ کرنا سنت ہے اور حدیث شریف میں مصافحہ کو سلام کی تکمیل قرار دیا گیا ہے،  حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پر یہ حق ہو جاتا ہے کہ ان کی دعاؤں کو سنے اور دونوں ہاتھوں کے الگ ہونے سے پہلے اُن کی مغفرت فرما دے۔(مجمع الزوائد:36/8، دارالکتب)

مصافحہ دونوں ہاتھوں سے کرنا سنت  اور افضل ہے اس طرح کہ دونوں ہاتھوں سے ایک دوسرے کی ہتھیلیاں آپس میں ملائی جائیں، اِمام بخاریؒ نے بخاری شریف میں دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کے ثبوت کے لیے باقاعدہ ایک ترجمۃ الباب قائم فرمایا ہے، اور اُس کے تحت حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی  روایت نقل فرمائی ہے جس میں آپ ﷺ کا دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے کا ذکر ہے ،  تاہم کسی عذر کی وجہ سے  ایک ہاتھ سے مصافحہ  کرنے میں  بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ البتہ مصافحہ کرتے وقت مندرجہ ذیل آداب کا خیال رکھنا چاہیے:

 (1)پہلے سلام اور پھر مصافحہ کرنا چاہیے،کیوں کہ سلام کے بغیر صرف مصافحہ خلافِ سنت ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: 248/5، دارالکتب)
(2)مشغولی کے وقت مصافحہ نہیں کرنا چاہیے۔ (آداب المعاشرت: 59،مکتبۃ العلم )

(3) جو شخص تیزی سے جا رہا ہو اُس کو مصافحہ کے لیے نہ روکنا چاہیے؛ تاکہ اس کا کوئی حرج نہ ہو۔ (آداب المعاشرت: 48)
(4)مجلس میں سب لوگوں کی بجائے صرف اُسی آدمی سے مصافحہ پر اکتفا کیا جائے جس کے ساتھ ملاقات کا ارادہ ہو، البتہ اگر باقی لوگوں کے ساتھ بھی واقفیت ہو تو ان سب سے مصافحہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ (آداب المعاشرت: 48)
(5)مصافحہ پہلی ملاقات کے وقت یا رخصت ہوتے ہوئے کرنا چاہیے۔ (آداب المعاشرت:49 ،مکتبۃ العلم)
(6)مصافحہ کرتے وقت دوسرے کی راحت کا خیال رکھنا چاہیے۔ (آداب المعاشرت: 53 ،مکتبۃ العلم)
(7)مصافحہ دونوں ہاتھوں سے کرنا چاہیے۔ (صحیح بخاری: 926/2،قدیمی)

(8) نمازوں کے متصل بعد مصافحہ کا التزام نہیں کرنا چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(كالمصافحة) أي كما تجوز المصافحة؛ لأنها سنة قديمة متواترة؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: «من صافح أخاه المسلم وحرك يده تناثرت ذنوبه»، وإطلاق المصنف تبعاً للدرر والكنز والوقاية والنقاية والمجمع والملتقى وغيره يفيد جوازها مطلقاً ولو بعد العصر، وقولهم: إنه بدعة أي مباحة حسنة كما أفاده النووي في أذكاره وغيره في غيره، وعليه يحمل ما نقله عنه شارح المجمع من أنها بعد الفجر والعصر ليس بشيء توفيقاً فتأمله. وفي القنية: السنة في المصافحة بكلتا يديه، وتمامه فيما علقته على الملتقى."

(قوله: كما أفاده النووي في أذكاره) حيث قال: اعلم أن المصافحة مستحبة عند كل لقاء، وأما ما اعتاده الناس من المصافحة بعد صلاة الصبح والعصر، فلا أصل له في الشرع على هذا الوجه، ولكن لا بأس به؛ فإن أصل المصافحة سنة، وكونهم حافظوا عليها في بعض الأحوال، وفرطوا في كثير من الأحوال أو أكثرها لا يخرج ذلك البعض عن كونه من المصافحة التي ورد الشرع بأصلها اهـ قال الشيخ أبو الحسن البكري: وتقييده بما بعد الصبح والعصر على عادة كانت في زمنه، وإلا فعقب الصلوات كلها كذلك، كذا في رسالة الشرنبلالي في المصافحة ... (قوله: وتمامه إلخ) ونصه: وهي إلصاق صفحة الكف بالكف وإقبال الوجه بالوجه، فأخذ الأصابع ليس بمصافحة خلافاً للروافض، والسنة أن تكون بكلتا يديه، وبغير حائل من ثوب أو غيره وعند اللقاء بعد السلام وأن يأخذ الإبهام، فإن فيه عرقاً ينبت المحبة، كذا جاء في الحديث، ذكره القهستاني وغيره اهـ".

(كتاب الحظروالاباحة،باب الاستبراء وغيره،ج:6،ص:381،ط:دار الفكر)

صحيح البخاري میں ہے:

"حدثنا أبو نعيم، حدثنا سيف، قال: سمعت مجاهداً يقول: حدثني عبد الله بن سخبرة أبو معمر قال: سمعت ابن مسعود، يقول: علمني رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكفي بين كفيه، التشهد، كما يعلمني السورة من القرآن: «التحيات لله، والصلوات والطيبات، السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، أشهد أن لاإله إلا الله، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله»، وهو بين ظهرانينا، فلما قبض قلنا: السلام - يعني - على النبي صلى الله عليه وسلم".

(کتاب الاستئذان،باب الأخذباليد،ج:5،ص:2311،رقم:5910،ط:دار ابن الكثير)

الكوكب الدري میں ہے:

"قوله : (الأخذ باليد) اللام فيه للجنس. فلا تثبت الوحدة، والحق فيه أن مضافحته ﷺ ثابتة باليد و باليدين، إلا أن المصافحة بيد واحدة لما كانت شعار أهل الأفرنج وجب تركه لذلك."

(ج:3،ص:392۔ط:ندوة العلماء لکهنو)

"معانقہ "  شہوت کے ساتھ بیوی یا (شرعی قواعد کے مطابق) اپنی مملوکہ  باندی کے علاوہ کسی اور سے کرنا حرام ہے، اور ملاقات کے وقت سنت،  اور سلام کاتتمہ ہونے کی حیثیت سے مکروہ ہے، بلکہ تحیہ کا اصل طریقہ سلام ہے اور اس کا تتمہ مصافحہ ہے، اور نفسانی شہوت کے شائبہ کے بغیر  ، فرطِ محبت اور جوشِ مسرت کی بنا پر جائز ہے،لہذا امرد سے معانقہ میں اگر شہوت کا خطرہ ہو تو اس سے معانقہ کرنا جائز نہیں ہوگا،  اگر شہوت کا خطرہ نہ ہو تب بھی  امرد سے معانقہ سے اجتناب کرنا چاہیے،البتہ اگر اپنے چھوٹے بچے ہوں، یا چھوٹے بھائی وغیرہ ہوں ان  پر شفقت کے لیے جوشِ مسرت میں ان سے معانقہ کرلیا جائے تویہ ناجائز نہیں ہے۔

 اعلاء السنن میں ہے:

"التقبيل والاعتناق قد يكونان علي وجه التحية،كالسلام والمصافحة، وهما اللذان نهي عنهما في الحديث؛ لأن مجرد لقاء المسلم إنما موجبه التحية فقط، فلما سأل سائل عنهما عند اللقاء فكأنه قال : إذا لقي الرجل أخاه أو صديقه فكيف يحييه؟ أيحييه بالانحناء والتقبيل والالتزام أم بالمصافحة فقط؟ فأجاب رسول الله صلي الله عليه وسلم بأن يحييه بالمصافحة  ولايحييه بالانحناء والتقبيل والاعتناق، فثبت أن التحية بهذه الأمور غير مشروعة، وإنما المشروع هو التحية بالسلام والمصافحة، وهو ما ذهب إليه أئمتنا الثلاثة :أبو حنيفة وأبو يوسف ومحمد، لأن هذه المسالة ذكره محمد في "الجامع الصغير" ونصه علي ما في البناية (4/251): محمد عن يعقوب عن أبي حنيفة قال: أكره أن يقبل الرجل من الرجل فمه أو يده أو شيئاً منه، وأكره المعانقة، ولاأري بالمصافحة بأساً"، وهذا يدل بسياقة على أن التقبيل والمعانقة الذين كرهما أبو حنيفة هما اللذان يكونان على وجه التحية عند اللقاء لا مطلقاً،

ويدل أيضاً على أن المسألة مما اتفق عليه الأئمة الثلاثة؛ لأن محمداً لم يذكر الخلاف فيها، وقد يكونان علی وجه الشهوة وهما المكاعمة، والمكامعة التي يعبر عنهما بالفارسية ب"بوس وكنار" وهما لاتجوزان عند أئمتنا الثلاثة؛ لورود النهي عنهما بخصوصهما، وبالأدلة الأخرى بعمومها، وقد يكونان لهيجان المحبة والشوق والاستحسان  عند اللقاء وغيره من غير شائبة الشهوة، وهما مباحان باتفاق أئمتنا الثلاثة؛ لثبوتهما عن النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه؛ ولعدم مانع شرعي عنه، هذا هو التحقيق".

(  17/418، کتاب الحظر والإباحة، باب كراهة تقبيل الرجل والتزامه أخاه علي وجه التحية،ج:17،ص:418،ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102065

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں