بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

Mrkz app پر کام کرنا


سوال

Mrkz App پر کام کرنا کیسا ہے ؟ ہم ان کی چیزیں فروخت کرتے ہیں ایک  چیز وہ ہمیں دس روپے کی دیتے ہیں ہم پندرہ کی سیل کرتے ہیں اور ایپ والوں کو بتاتے ہیں ہم نے پندرہ کی سیل کی ہے۔ وہ لوگ وہ چیز گاہک تک پہنچا کر پانچ روپے ہمیں سینڈ کر دیتے ہیں۔ ہم گاہک کو بتاتے ہیں کہ ہم ریسیلر ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ جو چیز فروخت کرنا مقصود ہو  وہ بائع کی ملکیت   اور قبضہ میں ہونا شرعاً ضروری ہے،لہذا صورت مسئولہ میں جب آپ مرکز ایپ کی  کسی چیزکو اپنا نفع شامل کرکے  آگےفروخت  کرتے ہیں،تو وہ چیز ابھی تک آپ کے ملکیت اور  قبضہ میں نہیں آئی  ہوتی ،لہذا اس طریقہ کار کے مطابق مرکز ایپ کے ذریعہ آن لائن تجارت  کرنا اور اس پر نفع کمانا(حدیث میں ممانعت کی وجہ سے) شرعا جائز نہیں ہے۔

البتہ اس کی جائز صورت یہ ہے کہ  آپ کو جب آرڈر ملے تو آپ خریدار سے سودا کرنے کے بجائے یوں کہہ دیا کریں کہ یہ سامان اگر آپ کو چاہیے تو میں اسے خرید کرآپ کو اتنی قیمت میں فروخت کرسکتاہوں،پھر اگر وہ اس پر آمادہ ہوتا ہے تو مرکز ایپ سے وہ چیز خرید کر اپنے قبضے میں لینے کے بعد خریدار کو خود ڈیلور کریں یا ان کے ذریعے ڈیلور کریں یعنی آپ یا آپ  کا کوئی وکیل اس چیز کو خرید کر اپنے  قبضہ میں لےاس کے بعد خریدار سے باقاعدہ سودا کرکے اس کی جانب ڈیلور کردے،تو شرعا یہ صورت جائز ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ بجائے اشیاء کی خرید وفروخت کے مرکز ایپ کے ساتھ اپنی بروکری کی اجرت مقرر کرکے یہ معاملہ کریں،اس طور پر کہ آپ اشیاء کی تصاویر شیئر کرتے وقت اور آڈر لیتے  وقت اس بات کی وضاحت کردیں کہ ہم   آپ  کی چیز  فروخت کریں گے،فروخت شدہ  چیز کی اصل قیمت مثلا:800 روپے ہے اوراس  میں ہماری محنت کی  اجرت مثلا:200 روپے ہوگی  وغیرہ،تو اس طرح  اجرت طے کرنا بھی شرعا جائز ہے۔

تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

"وكذا بيع ما ليس عند الإنسان لقوله - عليه الصلاة والسلام - «لا تبع ‌ما ‌ليس ‌عندك»، وكذا بيع ما لم يقبضه البائع لورود النهي عن ذلك..."

(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد،ج4،ص43،ط؛دار الکتاب الاسلامی)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا عرفت المبيع والثمن فنقول من حكم المبيع إذا كان منقولا أن لا يجوز بيعه ‌قبل ‌القبض."

(کتاب البیوع،ج3،ص13،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101429

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں