بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

مردکا ستر کہاں سے کہاں تک ہے؟


سوال

مرد کا ستر کہاں سے کہاں تک ہے  ؟ جن کا پردہ لازم ہے ،یعنی کون کون سے عضو شرم گاہ میں شامل ہیں؟

جواب

مرد کا ستر ناف کے متصل نیچے سے لے کر گھٹنے تک ہے،ناف سترمیں شامل نہیں البتہ گھٹنے ستر میں شامل ہیں،اس حصے کا چھپانافرض ہے،کسی کے سامنے اس حصہ بدن کو بلاضرورتِ شرعیہ کھولناجائز نہیں ۔ اور کسی  کے لیے دوسرے مرد کے اس حصہ ستر کو دیکھناجائز نہیں ، البتہ ستر کے علاوہ بقیہ بدن اگر فتنے یاشہوت کا خوف نہ ہوتو دیکھ سکتاہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة ، حدثنا زيد بن الحباب ، عن الضحاك بن عثمان قال: أخبرني زيد بن أسلم ، عن عبد الرحمن بن أبي سعيد الخدري ، عن أبيه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: « لا ينظر الرجل إلى عورة الرجل، ولا المرأة إلى عورة المرأة. ولا يفضي الرجل إلى الرجل في ثوب واحد، ولا تفضي المرأة إلى المرأة في الثوب الواحد."

ترجمہ:- ابو بکر بن ابی شیبہ ، زید بن حباب ، ضحاک بن عثمان، زید بن اسلم، عبد الرحمن بن ابی سعید خدری، ابو سعید خدری رضی وسلم اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک مرد دوسرے مرد کے ستر کو نہ دیکھے اور نہ عورت کسی عورت کا ستر دیکھے اور نہ ایک مرد دوسرے مرد کے ساتھ (جبکہ دونوں ننگے ہوں) ایک کپڑے میں لیے اور نہ اسی طرح ایک عورت دوسری عورت کے ساتھ (جس وقت کہ دونوں ننگی ہوں) ایک کپڑے میں لیٹیں۔

(کتاب الحیض،باب تحریم النظر الي العورات،ج:2،ص:166،ط:البشری)

مشکاۃ شریف میں ہے:

"عن الحسن مرسلًا قال: بلغني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لعن الله الناظر والمنظور إليه".

ترجمہ: حضرت حسن سے مرسلاً روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دیکھنے والے اور جسے دیکھا جائے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔

( کتاب النکاح،الفصل الثالث،‌‌باب النظر إلى المخطوبة وبيان العورات،ج:2، ص: 936،ط: المکتب الاسلامی بیروت لبنان)

مجمع الانہر فی شرح ملتقی الابحر میں ہے:

"(وينظر الرجل من الرجل إلى ما سوى العورة وقد بينت في الصلاة) أن العورة ما بين السرة إلى الركبة والسرة ليست بعورة."

(کتاب الکراھیة فصل في النظر ونحوہ,ج:4،ص:200،ط:دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100632

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں