بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحوم کی مطلقہ بیوی سے اولاد کا میراث میں حصہ


سوال

والد صاحب کی مطلقہ بیوی سے دو بچےہیں۔ بچے ابتدا   سے اپنی والدہ کے پاس ہی رہے، ان کے ایک لڑکا ایک لڑکی ہے، انہیں چھوڑے قریب پچیس تیس سال ہوگئے ہیں۔ پھر والد صاحب نے دوسرا نکا ح کیا جن سے میں اور میرا ایک بھائی ہے، سوال یہ ہے کہ والد محترم کی وفات کے بعد مطلقہ بیوی کے بچوں  کو ترکہ میں سے حصہ دیاجائے گا یا نہیں، جب کہ کام کاروبار کو بڑھانے میں اور رہائش کا پلاٹ اور اور اس پر گھر بنانے تک ہماری والدہ نےہمارے والد کا پورا ساتھ دیا ہے اور بنے ہوئے مکان کا قرضہ میرے ذمہ ہے، ہم اس کو ادا کرتے ہیں ۔غرض یہ کہ ہماری فیملی کا ایک بڑا حصہ بزنس کے سیٹ کرنے اور گھر کے بنانے میں لگا ہے ۔اگر ہم کسی قسم کا حیلہ  کریں تو کیا ہمارے لیے جائز ہے؟  اور اگر نہیں تو والد صاحب کی وفات کے بعد ہم میں تقسیمِ میراث کس طرح ہوگی؟

جواب

بصورتِ  مسئولہ جو اشیاء، کاروبار   اور  جائیداد آپ کے والدِ  مرحوم کی ملکیت  میں تھیں، اُن میں ان کی تمام اولاد کا حق ہوگا، خواہ وہ مطلقہ بیوی کے بچے ہوں یا غیر مطلقہ کے۔

پھر کارو بار سے متعلق سمجھنا چاہیے کہ اولاد اپنے والد کے ساتھ کاروبار میں جو معاونت کرتی ہے وہ تبرع ہوتا ہے، جب تک والد  کوئی کاروبار  الگ کر کے  کسی بیٹے یا بیٹی کو نہ دے دیں، وہ والد ہی کا شمار ہوتا ہے، اگرچہ کسی  ایک بیٹے نے اس میں زیادہ محنت  کی ہو، لہذا اس کاروبار  میں تمام اولاد برابر کی شریک ہوتی ہے۔

باقی جو مکان آپ نے اپنے والد کے ساتھ مل کر بنایا ہے، اگر اس مکان کے بنانے میں  آپ نے یہ معاہدہ کیا تھا کہ جتنی رقم میں لگا رہا ہوں اس رقم کے تناسب سے  میں اس مکان میں حصہ دار ہوں گا تو ایسی صورت میں آپ کو یہ حق ہے کہ تقسیمِ میراث سے پہلے اپنا مقررہ حصہ وصول کر لیں، اور اگر آپ نے یہ رقم اپنے والد کو  قرض  کی صراحت کر کے دی تھی تو  آپ قرض وصول کرنے کا حق رکھتے ہیں اور  اگر ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا تو آپ نے مالی طور پر اپنے والد کی جو معاونت کی، وہ  احسان اور نیکی کا کام  ہوا اور یہ مکان تمام ورثاء میں تقسیم ہو گا۔

حق دار کو امانت اور دیانت کے ساتھ حق دے دینے میں ہی دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے اور اسی سے  اپنے مال میں  برکت ہوتی ہے، وگرنہ  حیلے بہانوں سے دوسروں کا مال کھا جانے میں دنیا و آخرت کی رسوائی ہے، لہذا دیانت و امانت کے ساتھ تقسیمِ میراث کو یقینی بنائیں۔

اب تقسیم میراث کی صورت یہ ہے کہ اولاً مرحوم کے ترکہ میں سے ان کی تجہیز و تکفین کے اخراجات اور اگر کوئی قرض ہو (مثلًا والد مرحوم نے قرض لے کر مکان بنایا تھا)  تو اس کو ادا کیا جائے، پھر اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو ایک تہائی میں سے نافذ کیا جائے، اس کے بعد مرحوم کے کل ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کو 8 حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ مرحوم کی بیوہ کو، دو دو حصے ہر ایک بیٹے کو اور ایک حصہ بیٹی کو ملے گا۔

یعنی فیصد کے اعتبار سے ساڑھے بارہ فیصد مرحوم کی بیوہ کو، پچیس پچیس فیصد ہر ایک بیٹے کو اور ساڑھے بارہ فیصد بیٹی کو ملے گا۔

یہ تقسیم اس صورت میں ہے جب کہ آپ کی والدہ حیات ہوں۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201229

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں