بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرض الموت میں بعض ورثاء کو اکاونٹ میں جمع شدہ رقم ہبہ کرنے کا حکم


سوال

ہماری والدہ کا انتقال ہوا،  والدہ نے بینک میں ایک  اکاؤنٹ کھلوایا تھا اور یہ اکاؤنٹ اپنے دو بیٹوں کے نام پر کھولا تھا اور زبانی طور پر  ہسپتال میں بھی کہا تھا کہ یہ اکاؤنٹ میں  جو رقم  ہے،جو مبلغ 42 لاکھ روپے ہیں آپ دونوں بھائیوں کی ہے ، پھر چار دن کے بعد والدہ کا انتقال ہوا، اور  مذکورہ رقم ہم نے  والدہ کی زندگی میں  اکاؤنٹ سے نہیں نکلوائی تھی۔

پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ  رقم میں مرحومہ کی بیٹیوں کو حصہ ملے گا کہ نہیں؟ جب کہ مرحومہ کے ان پیسوں کے علاوہ ایک کروڑ روپے مزید ہے جو کہ ہم چاروں بھائی بہنوں میں تقسیم  کریں گے۔

مرحومہ کے ورثاء میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، ہمارے والد ، نانا اور نانی کا انتقال والدہ سے پہلے ہوا ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب والدہ نے انتقال سے چند دن پہلے مرض الموت کی حالت میں یہ  کہا کہ اکاؤنٹ میں جمع شدہ رقم تم دونوں بھائیوں کي ہے جب  کہ وہ مذکورہ اکاؤنٹ ان دو بھائیوں کے نام ہے ،تو  یہ ان دونوں کےلیے والدہ کی طرف سے  ہبہ (گفٹ) ہے، اور مرض الموت ميں  ہبہ وصيت كے حكم ميں هوتا هے اور وارث کےلیے وصیت  دوسرے ورثاء کی اجازت پرموقوف ہوتی ہے۔ لہٰذا مذکورہ صورت میں اکاؤنٹ میں جمع شدہ رقم بھی والدہ کا ترکہ شمار ہوکر تمام ورثاء میں شرعی اعتبار سے تقسیم ہوگی، جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

باقی مرحومہ کی میراث اس کے ورثاء میں تقسیم کرنے  کاشرعی طریقہ یہ ہےکہ سب سے پہلے مرحومہ  کے کل ترکہ سے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین  کا خرچہ نکالنے کے بعد،اگر مرحومہ کے ذمہ کسی کا  قرض  ہو تو  اس  کی ادائیگی کے بعد، اگرمرحومہ  نے کوئی جائزوصیت کی ہو تو  باقی مال کے ایک تہائی مال میں اس کو نافذ کرنے کے بعد ،باقی کل جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کے 6 حصے کرکے 2 حصے مرحومہ کے ہر ایک بیٹے کواور ایک ایک حصہ اس کی ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:۔۔6

بیٹابیٹابیٹیبیٹی
2211

یعنی 100 روپے میں سے  33.333روپے مرحومہ کے ہر ایک بیٹے کواور 16.666 روپےاس کی ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي المرض المعتبر المبيح لصلاته قاعدا  ----وهبته ووقفه وضمانه) كل ذلك حكمه (ك) حكم (وصية فيعتبر من الثلث)

(قوله: وهبته) أي إذا اتصل بها القبض قبل موته، أما إذا مات ولم يقبض فتبطل الوصية لأن هبة المريض هبة حقيقية وإن كانت وصية حكما كما صرح به قاضي خان وغيره اهـ ط عن المكي 

(قوله: حكمه كحكم وصية) أي من حيث الاعتبار من الثلث لا حقيقة الوصية لأن الوصية إيجاب بعد الموت، وهذه التصرفات منجزة في الحال زيلعي۔"

(رد المحتار، کتاب الوصایا، باب العتق في المرض، ج:6، ص: 679/680، ط:سعید)

شرح المجلۃ لسلیم رستم باز میں ہے:

"اذا وهب أحد في مرض موته شيئا لأحد ورثته و بعد وفاته لم تجز الورثة الباقون لاتصح تلك الهبة اصلا۔"

(کتاب الهبة، الفصل الثاني في هبة المريض، المادة:878، ج:1، ص:383، ط:رشيدية)

فتاوی محمودیه ميں ایک سوال کے جواب میں ہے:

"صورت مسئولہ میں چونکہ یہ ہبہ بیٹوں کے حق میں کیا گیا ہے جو کہ شرعاً وارث بھی ہیں، اس لیے ہبہ ناجائز ہے، کیوں کہ وارث کے حق میں وصیت شرعاً نافذ نہیں ہوتی جب تک دیگر ورثاء اجازت نہ دیں۔"

(کتاب الهبة، ج:16، ص:489)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100656

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں