بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مقامی بازار کے باشندگاں پر جمعہ کی نماز کا حکم


سوال

ہمارے گاؤں کہ قریب ایک بازار میں جمعہ کی نماز  پر اختلاف ہے،  بازار کافی بڑا ہے،  ہسپتال،  ڈاکخانہ،  نادرا آفس،  بینک  وغیرہ ہر قسم کی سہولیات موجود  ہیں،  پولیس تھانہ بھی موجود ہے،  لیکن بازار میں مقامی لوگوں کی رہائش انتھائی کم ہے،  تقریبًا تیس( 30)  سے (50)  گھر ہوں گے،  کیا اس بازار میں جمعہ کی نماز ہوجائےگی؟

جواب

بصورتِ مسئولہ جمعہ کی نماز جائز ہونےکے لیے اس جگہ کا مصر  (شہر) ہونا،  یا فنائے مصر کا ہونا،  یا قریہ کبیرہ (بڑا گاؤں جو کم از کم ڈھائی تین ہزار آبادی پر مشتمل ہو) کا ہونا ضروری ہے۔ جب کہ سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق  مذکورہ بازار  تیس سے پچاس گھر پر مشتمل ہے تو مطلوبہ مقدار میں آبادی نہ ہونے کی وجہ سے جمعہ کی نماز جائز نہیں ہے،  بلکہ ظہر کی نماز پڑھنا ضروری ہے۔

البناية شرح الهداية  میں ہے:

"(والمصر الجامع كل موضع له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود) ش: هذا تفسير المصر الجامع، وقد اختلفوا فيه، فعن أبي حنيفة: هو ما يجتمع فيه مرافق أهله دنيا ودينا.

وعن أبي يوسف: كل موضع فيه أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر تجب على أهله الجمعة، وهكذا روى الحسن عن أبي حنيفة في كتاب صلاته وفيه أيضا، قال سفيان الثوري: المصر الجامع: ما يعده الناس مصرا عند ذكر الأمصار المطلقة كبخارى وسمرقند.

وقال الكرخي: المصر الجامع ما أقيمت فيه الحدود، ونفذت فيه الأحكام، وهو اختيار الزمخشري، وعن أبي عبد الله البلخي أنه قال: أحسن ما سمعت إذا اجتمعوا في أكبر مساجدهم فلم يسعهم فهو مصر جامع، وعن أبي حنيفة: هو بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق، ويرجع الناس إليه فيما وقعت لهم من الحوادث، وهو اختيار صاحب " التحفة ".

وقال أبو يوسف في " نوادر ابن شجاع ": إذا كان في القرية عشرة آلاف فهو مصر، وعن بعض أصحابنا: المصر ما يعيش فيه كل صانع بصناعته ولا يحتاج إلى التحول إلى صنعة أخرى.

وفي " المستصفى ": أحسن ما قيل فيه إذا وجدت فيه حوائج الدين وهو القاضي والمفتي والسلطان فهو مصر جامع، وعن أبي حنيفة: المصر كل بلدة فيها سكك وأسواق ووال ينصف المظلوم من ظالمه وعالم يرجع إليه في الحوادث وهو الأصح."

(كتاب الصلوة، باب صلوة الجمعة، شروط صحة الجمعة، صلوة فى القرى، ج:3، ص:45، ط:دارالكتب العلمية) 

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144208200790

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں