بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پروموشن فیس لینا جائز نہیں ہے


سوال

سکولوں میں پروموشن فیس لینے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

شریعت مطہرہ کی رو سے کسی عین یا محنت کا عوض لینا جائز ہے لیکن جہاں نہ عین ہواور نہ منفعت تو وہاں بلا کسی وجہ کے عوض لینا جائز نہیں ۔

صورت مسئولہ کے مطابق اسکولوں میں رائج پروموشن فیس یعنی کسی طالب علم کی ایک کلاس سے دوسری کلاس میں ترقی پر فیس لینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کیونکہ  جب  کوئی طالب علم  کسی جماعت کا امتحان پاس کرلے تو اگلی کلاس میں اس کو ترقی دینا اس کا حق بنتا ہے کہ اسے اگلی جماعت میں پروموٹ کیا جائے ،جب یہ اس کا حق ہے تو پھر اس پر طالب علم سے ترقی کے عوض  فیس لینا کوئی معنی نہیں رکھتا، لہذا پروموشن فیس نہ کسی عین کا عوض ہے اور نہ کسی خدمت پر اجرت ،لہذا پروموشن فیس لینا جائز نہیں ہے۔

فتاوى ہندیہ میں ہے:

"الاجارة على نوعان نوع يرد على منافع الأعيان كاستئجار الدور والأراضي والدواب والثياب وما أشبه ذلك ونوع يرد على العمل كاستئجار المحترفين للأعمال كالقصارة والخياطة والكتابة وما أشبه ذلك".

(كتاب الإجارة، الباب الأول تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها، ج:4، ص:411، ط:دار الفكر)

البحرالرائق  میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد ‌من ‌المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي".

(كتاب الحدود، باب حد القذف، فصل في التعزير، ج:5، ص:44، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409101593

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں