بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مزارعت میں مالکِ زمین اور عامل کے درمیان مختلف معاہدات کے شرعی احکام


سوال

1: بعض لوگ اس طرح معاملہ کرتے ہیں کہ مالکِ زمین کے ذمہ بیج، کھاد اور ہل چلانا ہوتا ہے،  باقی فصل کو پانی دینا (مالک کے کنویں سے)، کاٹنا، تھریشر کرنا، وغیرہ عامل کے ذمہ ہوتا ہے اور عامل کو اس سب کے عوض پیداوار کا ثلث ملتا ہے، کیا اس طرح کا معاملہ کرنا شرعاً درست ہے؟

2: تھریشر اور چکی چلانے والے کو اپنی فصل کا بیسواں حصہ مزدوری میں دینا شرعاً جائز  ہے یانہیں؟

3: مالک اپنی زمین عامل کے حوالے کرتے وقت یہ شرط لگاتا ہے کہ آپ ثلث کے بجائے ربع لے لو اور اس ربع کے ساتھ میں اپنی طرف سے تمہیں پچاس من گندم دے دوں گا کیا یہ معاملہ از روئے شرع صحیح ہے یا نہیں؟

4: مالکِ زمین اپنی زمین عامل کے حوالے کرتے وقت  اسی زمین کا ایک حصہ متعین کرکے عامل کو دیتا ہے  کہ اس میں جو فصل ہوگی وہ تمہاری اور بقیہ ساری زمین کی فصل میری ہوگی، فصل کٹنے کے بعد زمین کا وہ ٹکڑا زمین کے مالک کا ہوگا، کیا یہ معاملہ شریعت کے مطابق ہے یا نہیں؟

جواب

1:صورتِ مسئولہ میں اگر معاملہ کی نوعیت یہ ہو  کہ مالکِ زمین کے ذمہ بیج ڈالنا، ہل چلانا اور کھاد فراہم کرنا ہوگا اور عامل کے ذمہ مالک کے کنویں سے فصل کو سیراب کرنا، فصل کاٹنا اور تھریشر کرنا ہوگا اور  عامل کواس کے عوض اسی  پیداوار کا ثلث ملے گا تو یہ صورت شرعاً درست نہیں، اس صورت میں مالکِ زمین کو چاہیے کہ عامل کےلیے اجرت (مزدوری) متعین کرے۔

الہدایۃ  فی شرح بدایۃ المبتدی میں ہے:

''والثاني: أن يجمع بين البذر والبقر. وأنه لا يجوز أيضا لأنه لا يجوز عند الانفراد فكذا عند الاجتماع، والخارج في الوجهين لصاحب البذر في رواية اعتبارا بسائر المزارعات الفاسدة، وفي رواية لصاحب الأرض ويصير مستقرضا للبذر قابضا له لاتصاله بأرضه".

(کتاب المزارعة، شروطها، ج:4، ص:338، ط:دار احياء)

2: تھریشر یا چکی چلانے والے کا اسی غلہ میں سے( جو تھریشر یاپیساجارہاہے) بیسواں حصہ  بطورِ اجرت(مزدوری) لینا( جیسا کہ  بہت سے علاقوں میں رائج ہے) اجارہ فاسدہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں، اس لیے  کہ جو چیز فی الحال موجود نہیں، بلکہ اجیر (مزدور) کے عمل  سے حاصل ہوگی، اس کو اجیر کے لیے اجرت مقرر کرنا جائز نہیں ہے۔

اس کی متبادل جائز صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اجیر (تھریشر یاچکی والا) اپنی  اجرت  فی ’من‘ یا فی ’بوری‘ کے حساب سے  طے کرلیں، مثلاً ایک من گندم  تھریشر کرنے یاپیسنے  پر ایک کلو یا دو کلو گندم وغیرہ بطور اجرت طے کرلی جائے، لیکن یہ شرط نہ لگائی جائے کہ تریشر یا پیسی جانے والی گندم  سے ہی مذکورہ اجرت لوں گا، اگرچہ بعد میں اسی غلہ سے مزدوری دے دی جائے۔

البحرالرائق میں ہے:

"قال في النهاية لو قال احمل لي هذا الكر إلى بغداد بنصفه فإنه لا يكون شريكا وتفسد الإجارة؛ لأنه في معنى قفيز الطحان وللأجير أجر مثله إن وصل إلى بغداد لا يتجاوز المسمى ومشايخ بلخ والنسفي جوزوا حمل الطعام ببعض المحمول ونسج الثوب ببعض المنسوج لتعامل أهل بلادهم بذلك، والقياس يترك بالتعامل كما في الاستصناع ومشايخنا - رحمهم الله - لم يجوزوا ذلك وقالوا هذا التخصيص تعامل أهل بلدة واحدة وبه لا يخص الأثر والحيلة في جوازه أن يشترطا قفيزا مطلقا فإذا عمل استحق الأجرة وفي الغياثية دفع إلى حائك ثوبا لينسجه بنصفه أو بثلثه أو ربعه فالإجارة فاسدة عند علمائنا وبه أفتى الإمام السرخسي والسيد الإمام الشهيد.

ومشايخ بلخ يفتون بالجواز لعرف بلادهم وفي الظهيرية وبه أخذ الفقيه أبو الليث وشمس الأئمة الحلواني والقاضي أبو علي النسفي. اهـ.

وفي التتارخانية لو استأجر ثورا ليطحن له إردبا ببعض منه أو حمارا ليحمل له إردبا ببعض منه فالإجارة فاسدة، ولو استأجر حانوتا بنصف ما ربح فيه فالإجارة فاسدة وفي المحيط لو استأجر حائكا لينسج هذا الثوب بنصفه على أن يزيد رطلا من عنده فنسج وزاد فله أجر مثل عمله ويضمن صاحب الثوب للحياك رطلا من الغزل".

(كتاب الاجارة، باب الاجارة الفاسدة، إستئجار الظئر بأجرة معلومة، ج:8، ص:27، ط:دار الكتاب)

3:مذکورہ معاملہ میں یہ شرط لگانا( کہ عامل  ثلث کے بجائے ربع لے لے اور مالک زمین  اس کو پچاس من گندم اپنی طرف سے دے گا) شرعاً جائز نہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) : أن تكون حصة كل واحد من المزارعين بعض الخارج حتى لو شرطا أن يكون من غيره لا يصح العقد لأن المزارعة استئجار ببعض الخارج به تنفصل عن الإجارة المطلقة".

(كتاب المزارعة، فصل في الشرائط التي ترجع إلى الخارج من الزرع، ج:6، ص:177، ط:سعيد)

4:مذکورہ معاملہ میں مالکِ زمین کا زمین کے ایک ٹکڑے کو متعین کرنا کہ اس میں جو فصل ہوگی، وہ عامل کی ہوگی اور اس کے علاوہ زمین پر جتنی فصل ہوگی وہ مالکِ زمین کی ہوگی، از روئے شرع جائز نہیں، کیوں کہ  ہوسکتاہے کہ اسی متعین حصہ میں بالکل فصل نہ اُگے یا صرف اسی جگہ میں اُگے اور دوسرے حصہ میں نہ اُگے، اس لیے  اس طرح معاملہ کرنا شرعاً جائز نہی بلکہ پیداوار  کی فیصد طے کرکے معاہدہ کرنا چاہیے۔

البنایۃ فی شرح الہدایہ میں ہے:

"(لأنه إذا شرط لأحدهما زرع موضع معين أفضى ذلك إلى قطع الشركة؛ لأنه لعله لا يخرج إلا من ذلك الموضع) ش: أي لأن الشأن لعل الزرع لا يخرج إلا من ذلك الموضع المعين م: (وعلى هذا) ش: أي على ما ذكرنا من عدم الجواز م: (إذا شرط لأحدهما ما يخرج من ناحية معينة ولآخر ما يخرج من ناحية أخرى) ش: أي وشرط الآخر ما يخرج من الزرع من ناحية أخرى".

(كتاب المزارعة، بيان المدة في المزارعة، ج:11، ص:491، ط:دارالكتب)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144306100079

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں