بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

موت تک گھر نہ آنے پر بیوی کی طلاق کو معلق کرنے کے بعد شوہر کے انتقال کی صورت میں میراث کا حکم


سوال

 ایک شخص کی بیوی اپنے میکے چلی گئی، شوہر نے بیوی سے (حالت صحت) میں کہا :اگر میری موت سے پہلے میرے گھر نہیں آئی تو طلاق ہے" اتفاقاً بیوی کے  سسرال میں آنے سے پہلے شوہر وفات  پاگیا، اب جاننا چاہتے ہیں کہ  کیا بیوی پر طلاق واقع ہوگی  یا نہیں؟ اور یہ  بیوی،  اس شوہر  کی  میراث کا دعوی کر سکتی ہے یا نہیں؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب شوہرنے بیوی سے یہ  کہا  کہ : ”اگر میری موت سے پہلے میرے گھر نہیں آئی تو طلاق ہے“   تو بیوی کے   شوہر کی وفات  تک اس کے گھر نہ آنے پر  طلاق  معلّق ہوگئی تھی، بعد ازاں   چوں کہ بیوی شوہر کی وفات تک اس کے گھر نہیں آئی تو شوہر کے انتقال کے وقت اس پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ،  لیکن چوں کہ طلاق ِ رجعی میں  عدت ختم ہونے تک نکاح برقرار ہوتا ہے، اس لیے  مطلّقہ،  شوہر کی میراث میں سے اپنے حصہ کی حق دار ہوگی۔

المبسوط للسرخسي  میں ہے:

"ولو حلف بطلاق امرأته ليأتين البصرة فمات قبل ذلك طلقت عند الموت؛ لأن بموته فات شرط البر وهو إتيان البصرة، ولا نقول: إنه يحنث بعد موته ولكنه كما أشرف على الموت وتحقق عجزه عن إتيان البصرة حنث حتى إن كان لم يدخل بها فلا ميراث لها ولا عدة عليها، وإن كان قد دخل بها فلها الميراث وعليها العدة وتعتد إلى أبعد الأجلين بمنزلة امرأة الفار."

(9 / 8، كتاب الأيمان، باب القضاء في اليمين، ط: دارالمعرفة، بيروت)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"(قوله طلقها رجعيا أو بائنا في مرض موته، ومات في عدتها ورثت وبعدها لا) لأن الزوجية سبب إرثها في مرض موته، والزوج قصد إبطاله فيرد عليه قصده بتأخير عمله إلى زمن انقضاء العدة دفعا للضرر عنها، وقد أمكن لأن النكاح في العدة يبقى في حق بعض الآثار فجاز أن يبقى في حق إرثها عنه بخلاف ما بعد الانقضاء لأنه لا مكان، والزوجية في هذه الحالة ليست بسبب لإرثه عنها فيبطل في حقه خصوصا إذا رضي به... أطلق الرجعي ليفيد أنها ترث، وإن طلق في الصحة ما دامت في العدة لبقاء الزوجية بينهما حقيقة حتى حل الوطء، وورثها إذا ماتت فيها.

(قوله أطلق الرجعي ليفيد إلخ) قال في النهر، وعندي أنه كان ينبغي حذف الرجعي من هذا الباب لأنها فيه ترث، ولو طلقها في الصحة ما بقيت العدة بخلاف البائن فإنها لا ترثه إلا إذا كان في المرض، وقد أحسن القدوري في اقتصاره على البائن، ولم أر من نبه على هذا."

(4/ 46، کتاب الطلاق، باب طلاق المریض، ط: دارالکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101594

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں