1۔میری اولاد نہیں تھی، میں نے ایک بچی کو گود لیا، میں نے اس کو اپنی ہمشیرہ سے دودھ بھی پلوایا تھا اور اس کو اپنا نام بھی دے دیا تھا، اب اس کے تمام دستاویزات میں میں نے والد کی جگہ اپنا نام درج کروایا ہے، کیا میرے لیے ایسا کرنا شرعًا درست ہے یا نہیں؟ اگر درست نہیں ہے تو میں کب تک دستاویزات میں اپنا نام بطور والد باقی رکھ سکتا ہوں؟ کیا اس کی شادی تک رکھ سکتا ہوں؟
2۔اس وقت اس بچی کی عمر 17 سال ہے،کیا وہ بچی میرے لیے محرم ہے یا نہیں؟ کیا اس کا مجھ سے پردہ ہے یا نہیں؟
3۔میری ایک بیوی ہے اور بہن بھائی ہیں ، اس گود لی ہوئی بچی کے علاوہ میری کوئی اولاد نہیں ہے، اگر میں اپنی جائے داد اپنی زندگی میں تقسیم کرنا چاہوں تو اس منہ بولی بچی کو اپنی جائے داد میں سے کتنا حصہ دے سکتا ہوں؟ اور بیوی اور بہن بھائیوں کو کتنا حصہ دے سکتا ہوں؟
1۔شریعتِ مطہرہ میں لے پالک اور منہ بولے بیٹے،بیٹی کی حقیقی اولاد کی طرح حیثیت نہیں ہے اور کسی کو منہ بولا بیٹا،بیٹی بنانے سے وہ حقیقی بیٹا ،بیٹی نہیں بن جاتے اور نہ ہی ان پر حقیقی اولاد والے اَحکام جاری ہوتے ہیں، البتہ گود میں لینے والے کو بچے کی پرورش، تعلیم و تربیت اور اسے ادب و اخلاق سکھانے کا ثواب ملتا ہے، جاہلیت کے زمانے میں یہ دستور تھا کہ لوگ لے پالک اور منہ بولی اولاد کو حقیقی اولاد کا درجہ دیتے تھے ، لیکن اسلام نے اس تصور و رواج کو ختم کرکے یہ اعلان کردیا کہ منہ بولی اولاد حقیقی اولاد نہیں ہوسکتی اور لے پالک اور منہ بولی اولاد کو ان کے اصل والد کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے۔ جب رسولﷺ نے زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا ”متبنیٰ“ (منہ بولا بیٹا) بنایا اور لوگ ان کو ”زید بن محمد“ پکارنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:
"{وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا اٰبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا} [سورۃ الأحزاب: 4، 5]"
"ترجمہ: اور تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (سچ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا، یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے ، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو، یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے، اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں، اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا)، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ (از بیان القرآن)"
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کرام حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے والد کی طرف منسوب کرکے ”زید بن حارثہ“ کے نام سے پکارنے لگے، لہذا اس سے معلوم ہوا کہ کسی بچے کو گود لینے سے وہ حقیقی بیٹایا بیٹی نہیں بنتے، نہ ہی ان پر حقیقی بچوں والے احکامات جاری ہوتے ہیں، اس لیے لے پالک کو اس کے حقیقی والد کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے،شناختی کارڈ اور دیگر کاغذات میں اس کی ولدیت میں گود لینے والے کا نام بطور والد درج کرانا حرام اور ناجائز ہے، ہاں گود لینے والا شخص بطورِ سرپرست (Guardian) اس بچے کو اپنا نام دے سکتا ہے۔اسی طرح نکاح کے وقت ایجاب و قبول کرتے وقت لڑکے یا لڑکی کے نام کے ساتھ ولدیت میں حقیقی والد کا نام پکارنا ضروری ہے ۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کے لیے اپنی منہ بولی بیٹی کی دستاویزات (شناختی کارڈ وغیرہ) میں ولدیت کے خانے میں حقیقی والد کے بجائے اپنا نام لکھوانا جائز نہیں تھا، ولدیت کے خانے میں حقیقی والد کا نام لکھوانا ہی ضروری ہے، البتہ آپ منہ بولی بیٹی کی دستاویزات میں اپنا نام بطورِ سرپرست (Guardian) کے لکھواسکتے ہے، لہٰذا آپ کو چاہیے کہ حتی الامکان کوشش کر کے جلد از جلد اس منہ بولی بیٹی کی تمام دستاویزات میں ولدیت کا درست اندراج کروالیں، نیز نکاح کے وقت نکاح نامہ میں بھی درست ولدیت لکھوائیں اور نکاح کے ایجاب و قبول کے وقت درست ولدیت پکارنا بھی ضروری ہوگا، ورنہ بعض صورتوں میں نکاح ہی نہیں ہوگا۔(۱)
2۔چوں کہ مذکورہ بچی کو آپ کی ہمشیرہ (بہن) نے اپنا دودھ پلایا ہے، اس لیے آپ اِس بچی کے رضاعی ماموں ہیں اور یہ بچی آپ کی رضاعی بھانجی ہے ، لہٰذا یہ بچی آپ کی محرم ہے اور اس کے لیے آپ سے پردہ کرنا لازم نہیں ہے۔(۲)
3۔واضح رہے کہ آپ اپنی زندگی میں اپنی جائےداد کے خود اکیلے مالک ہیں، آپ کی مملوکہ جائیداد پر کسی کا حق نہیں ہے، میراث کی تقسیم کا مسئلہ انتقال کے بعد جاری ہوتا ہے اور وہ اس وقت موجود شرعی ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوتا ہے، کسی کے انتقال سے قبل میراث کی تقسیم کا حتمی طریقہ نہیں بتایا جاسکتا ہے ۔ البتہ زندگی میں اپنی جائے داد کو تقسیم کرنے کی حیثیت ہبہ اور تحفہ کی ہے، لہٰذا اگر آپ اپنی زندگی ہی میں اپنی جائے داد تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو شرعاً اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی جائے داد میں سے اپنے لیے جتنا حصہ رکھنا چاہیں اتنا رکھ لیں کہ خدانخواستہ شدید ضرورت کے وقت محتاجی نہ ہو، اور اپنی جائے داد میں سے کم از کم چوتھا حصہ اپنی بیوی کو دینے کے بعد باقی جائے داد میں سے اگر منہ بولی بیٹی کو دینا چاہیں تو ایک تہائی حصہ منہ بولی بیٹی کو دینے کے بعد باقی جائے داد تمام بہن بھائیوں میں برابر برابر تقسیم کردیں، بلا وجہ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ نہ دیں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ہبہ کے شرعا معتبر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جائے داد تقسیم کرکے ہر ایک کو اس کے حصہ پر باقاعدہ ایسا قبضہ دے دیا جائے کہ اس کو اس میں تصرف کرنے کا پورا اختیار ہو، ورنہ شرعاً یہ ہبہ معتبر نہیں ہوگا۔(۳)
نوٹ: آپ منہ بولی بیٹی کے لیے اپنی جائے داد میں سے مرنے کے بعد ایک تہائی تک حصہ دینے کی وصیت بھی کرسکتے ہیں، لیکن آپ کی میراث میں اس منہ بولی بیٹی کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔یعنی زندگی میں جائے داد تقسیم کرنے کی صورت میں چاہیں تو منہ بولی بیٹی کو اپنی زندگی ہی میں اپنے ہاتھ سے ایک تہائی حصہ دے دیں اور زندگی میں جائے داد تقسیم نہ کرنے کی صورت میں چاہیں تو منہ بولی بیٹی کے لیے ترکے میں سے ایک تہائی حصہ دیے جانے کی وصیت کردیں، کیوں کہ وہ وارث نہیں بنے گی، وصیت کرنے کی صورت میں اسے ترکے میں سے حسبِ وصیت حصہ مل جائے گا بشرطیکہ ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت نہ کی ہو۔
حوالہ جات مندرجہ ذیل ہیں:
(۱)ریاض الصالحین میں ہے:
"367 - باب تحريم انتساب الإِنسان إِلى غير أَبيه وتولّيه إِلى غير مواليه.
1/1802-عن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام. متفق عليه."
"ترجمہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : جس شخص نے اپنے والد کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو جانتے ہوئے اپنا والد قرار دیا تو اس پر جنت حرام ہے۔"
"2/1803- وعن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا ترغبوا عن آبائكم، فمن رغب عن أبيه فهو كفر. متفق عليه."
"ترجمہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اپنے والد سے بے رغبتی و اعراض مت کرو ؛ اس لیے کہ جو شخص اپنے والد سے اعراض (اپنے آپ کو کسی اور کی طرف منسوب) کرے گا تو یہ کفر ہے۔"
"3/1804- وعن يزيد شريك بن طارق قال: رأيت عليا رضي الله عنه على المنبر يخطب، فسمعته يقول: لا والله ما عندنا من كتاب نقرؤه إلا كتاب الله، وما في هذه الصحيفة، فنشرها فإذا فيها أسنان الإبل، وأشياء من الجراحات، وفيها: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: .. ومن ادعى إلى غير أبيه، أو انتمى إلى غير مواليه، فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لا يقبل الله منه يوم القيامة صرفا ولا عدلا. متفق عليه."
"ترجمہ: حضرت علی کرم اللہ وجہہ جناب رسول اللہ ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں : جو شخص اپنے والد کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا والد قرار دے گا یا غیر کی طرف منسوب کرے گا تو اس پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو، روز قیامت اللہ اس کی مالی عبادات قبول نہیں کرے گا۔"
"4/1805- وعن أبي ذر رضي الله عنه أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ليس من رجل ادعى لغير أبيه وهو يعلمه إلا كفر ... الخ."
"ترجمہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جانتے ہوئے کسی اور کے بارے میں والد ہونے کا دعوی کسی نے کیا تو اس نے کفر کیا ۔۔۔الحدیث۔"
(كتاب الأمور المنهي عنها،باب تحريم انتساب الإنسان إلى غير أبيه،ص:498، ط: مؤسسة الرسالة، بيروت)
تفسير ابن كثير میں ہے:
"وقوله:﴿وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ﴾: هذا هو المقصود بالنفي؛ فإنها نزلت في شأن زيد بن حارثة مولى النبي صلى الله عليه وسلم، كان النبي صلى الله عليه وسلم قد تبنّاه قبل النبوة، وكان يقال له: "زيد بن محمد"، فأراد الله تعالى أن يقطع هذا الإلحاق وهذه النسبة بقوله:﴿وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ﴾كما قال في أثناء السورة:﴿ مَا كَانَ مُحَمّد اَبآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمًا﴾وقال هاهنا:﴿ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ ﴾يعني: تبنيكم لهم قول لا يقتضي أن يكون ابناً حقيقياً، فإنه مخلوق من صلب رجل آخر، فما يمكن أن يكون له أبوان، كما لا يمكن أن يكون للبشر الواحد قلبان. ... وقوله:﴿ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ﴾: هذا أمر ناسخ لما كان في ابتداء الإسلام من جواز ادعاء الأبناء الأجانب، وهم الأدعياء، فأمر [الله] تعالى برد نسبهم إلى آبائهم في الحقيقة، وأن هذا هو العدل والقسط. قال البخاري، رحمه الله: حدثنا معلى بن أسد، حدثنا عبد العزيز بن المختار، حدثنا موسى بن عقبة قال: حدثني سالم عن عبد الله بن عمر؛ أن زيدا بن حارثة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما كنا ندعوه إلا زيد بن محمد، حتى نزل القرآن:﴿ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ﴾. وأخرجه مسلم والترمذي والنسائي، من طرق، عن موسى بن عقبة، به ۔ وقد كانوا يعاملونهم معاملة الأبناء من كل وجه، في الخلوة بالمحارم وغير ذلك؛ ولهذا قالت سهلة بنت سهيل امرأة أبي حذيفة: يا رسول الله، كنا ندعو سالماً ابناً، وإن الله قد أنزل ما أنزل، وإنه كان يدخل علي، وإني أجد في نفس أبي حذيفة من ذلك شيئاً، فقال صلى الله عليه وسلم: "أرضعيه تحرمي عليه" الحديث. ولهذا لما نسخ هذا الحكم، أباح تعالى زوجة الدعي، وتزوج رسول الله صلى الله عليه وسلم بزينب بنت جحش زوجة زيد بن حارثة، وقال:﴿ لِكَيْ لَا يَكُوْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ حَرَج فِيْ اَزْوَاجِ اَدْعِيَآئِهِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا﴾[الأحزاب:37] ، وقال في آية التحريم:﴿وَحَلَآئِلُ اَبْنَآئِكُمُ الَّذِيْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ﴾، احترازاً عن زوجة الدعي، فإنه ليس من الصلب، فأما الابن من الرضاعة، فمنزل منزلة ابن الصلب شرعاً، بقوله عليه السلام في الصحيحين: "حرموا من الرضاعة ما يحرم من النسب" . فأما دعوة الغير ابناً على سبيل التكريم والتحبيب، فليس مما نهي عنه في هذه الآية، بدليل ما رواه الإمام أحمد وأهل السنن إلا الترمذي، من حديث سفيان الثوري، عن سلمة بن كهيل عن الحسن العرني، عن ابن عباس، رضي الله عنهما، قال: قدمنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم أغيلمة بني عبد المطلب على حمرات لنا من جمع، فجعل يلطخ أفخاذنا ويقول: "أبيني لا ترموا الجمرة حتى تطلع الشمس ". قال أبو عبيد وغيره: "أبيني" تصغير بني . وهذا ظاهر الدلالة، فإن هذا كان في حجة الوداع سنة عشر، وقوله:ادعوهم لآبائهم} في شأن زيد بن حارثة، وقد قتل في يوم مؤتة سنة ثمان، وأيضا ففي صحيح مسلم، من حديث أبي عوانة الوضاح بن عبد الله اليشكري، عن الجعد أبي عثمان البصري، عن أنس بن مالك، رضي الله عنه، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يا بني". ورواه أبو داود والترمذي .
وقوله:{فإن لم تعلموا آباءهم فإخوانكم في الدين ومواليكم}: أمر الله تعالى برد أنساب الأدعياء إلى آبائهم، إن عرفوا، فإن لم يعرفوا آباءهم، فهم إخوانهم في الدين ومواليهم، أي: عوضا عما فاتهم من النسب. ولهذا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم خرج من مكة عام عمرة القضاء، ... وقال لزيد: "أنت أخونا ومولانا".
ففي هذا الحديث أحكام كثيرة من أحسنها: أنه، عليه الصلاة والسلام ... قال لزيد: "أنت أخونا ومولانا"، كما قال تعالى: {فإخوانكم في الدين ومواليكم} ... وقد جاء في الحديث: "من ادعى لغير أبيه، وهو يعلمه، كفر وهذا تشديد وتهديد ووعيد أكيد، في التبري من النسب المعلوم؛ ولهذا قال: {ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله فإن لم تعلموا آباءهم فإخوانكم في الدين ومواليكم} ... وفي الحديث المتقدم: "من ادعى إلى غير أبيه، وهو يعلمه، إلا كفر". وفي القرآن المنسوخ: "فإن كفرا بكم أن ترغبوا عن آبائكم". قال الإمام أحمد: حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، عن ابن عباس، عن عمر أنه قال: بعث الله محمدا صلى الله عليه وسلم بالحق، وأنزل معه الكتاب، فكان فيما أنزل عليه آية الرجم، فرجم رسول الله صلى الله عليه وسلم، ورجمنا بعده. ثم قال: قد كنا نقرأ: "ولا ترغبوا عن آبائكم [فإنه كفر بكم -أو: إن كفرا بكم -أن ترغبوا عن آبائكم] ... ورواه في الحديث الآخر: "ثلاث في الناس كفر: الطعن في النسب، والنياحة على الميت، والاستسقاء بالنجوم."
(سورة الأحزاب، الآية:4، ج:6/ 336، ط: دار الكتب العلمية)
روح المعانی میں ہے:
"لا يجوز انتساب الشخص إلى غير أبيه، وعد ذلك بعضهم من الكبائر لما أخرج الشيخان، وأبو داود عن سعد بن أبي وقاص أن النبي صلّى الله تعالى عليه وسلم قال: من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام. وأخرج الشيخان أيضا من ادعى إلى غير أبيه أو انتمى إلى غير مواليه فعليه لعنة الله تعالى والملائكة والناس أجمعين لا يقبل الله تعالى منه صرفا ولا عدلا. وأخرجا أيضا ليس من رجل ادعى لغير أبيه وهو يعلم إلّا كفر."
(سورة الأحزاب: 11/ 147، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(غلط وكيلها بالنكاح في اسم أبيها بغير حضورها لم يصح)؛ للجهالة وكذا لو غلط في اسم بنته إلا إذا كانت حاضرةً وأشار إليها فيصح.
(قوله: لم يصح)؛ لأن الغائبة يشترط ذكر اسمها واسم أبيها وجدها، وتقدم أنه إذا عرفها الشهود يكفي ذكر اسمها فقط خلافاً لابن الفضل، وعند الخصاف يكفي مطلقاً، والظاهر أنه في مسألتنا لا يصح عند الكل؛ لأن ذكر الاسم وحده لا يصرفها عن المراد إلى غيره، بخلاف ذكر الاسم منسوباً إلى أب آخر، فإن فاطمة بنت أحمد لا تصدق على فاطمة بنت محمد، تأمل، وكذا يقال فيما لو غلط في اسمها، (قوله: إلا إذا كانت حاضرةً إلخ) راجع إلى المسألتين: أي فإنها لو كانت مشاراً إليها وغلط في اسم أبيها أو اسمها لا يضر؛ لأن تعريف الإشارة الحسية أقوى من التسمية، لما في التسمية من الاشتراك لعارض فتلغو التسمية عندها، كما لو قال: اقتديت بزيد هذا، فإذا هو عمرو، فإنه يصح."
(كتاب النكاح، 3/ 26، ط: سعيد)
(۲)فتاویٰ شامی میں ہے:
"باب الرضاع (هو) لغة بفتح وكسر: مص الثدي. وشرعا (مص من ثدي آدمية) ولو بكرا أو ميتة أو آيسة، وألحق بالمص الوجور والسعوط (في وقت مخصوص) هو (حولان ونصف عنده وحولان) فقط (عندهما وهو الأصح) فتح وبه يفتى كما في تصحيح القدوري عن العون، لكن في الجوهرة أنه في الحولين ونصف، ولو بعد الفطام محرم وعليه الفتوى ...(ويثبت به) ولو بين الحربيين بزازية (وإن قل) إن علم وصوله لجوفه من فمه أو أنفه لا غير، فلو التقم الحلمة ولم يدر أدخل اللبن في حلقه أم لا لم يحرم لأن في المانع شكا ولوالجية.
(قوله: لا غير) يأتي محترزه في قول المصنف: والاحتقان والإقطار في أذن وجائفة وآمة (قوله: فلو التقم إلخ) تفريع على التقييد بقوله إن علم. وفي القنية: امرأة كانت تعطي ثديها صبية واشتهر ذلك بينهم ثم تقول لم يكن في ثديي لبن حين ألقمتها ثدي ولم يعلم ذلك إلا من جهتها جاز لابنها أن يتزوج بهذه الصبية. اهـ. ط. وفي الفتح: لو أدخلت الحلمة في في الصبي وشكت في الارتضاع لا تثبت الحرمة بالشك.ثم قال: والواجب على النساء أن لا يرضعن كل صبي من غير ضرورة، وإذا أرضعن فليحفظن ذلك وليشهرنه ويكتبنه احتياطا اهـ"
(كتاب النكاح، باب الرضاع، 3/ 209، 212 ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"كل من تحرم بالقرابة والصهرية تحرم بالرضاع."
(كتاب النكاح،الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم الثالث المحرمات بالرضاع، ج:1/ 277، ط:دار الفكر )
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"قليل الرضاع وكثيره إذا حصل في مدة الرضاع تعلق به التحريم كذا في الهداية. قال في الينابيع: والقليل مفسر بما يعلم أنه وصل إلى الجوف كذا في السراج الوهاج ... يحرم على الرضيع أبواه من الرضاع وأصولهما وفروعهما من النسب والرضاع جميعا حتى أن المرضعة لو ولدت من هذا الرجل أو غيره قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت رضيعا أو ولد لهذا الرجل من غير هذه المرأة قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت امرأة من لبنه رضيعا فالكل إخوة الرضيع وأخواته وأولادهم أولاد إخوته وأخواته وأخو الرجل عمه وأخته عمته وأخو المرضعة خاله وأختها خالته وكذا في الجد والجدة."
(كتاب الرضاع، ج:1/ 342، ط:دار الفكر)
(۳)مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:
"وعن أبي هريرة - رضي الله عنه - عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: «إن الرجل ليعمل والمرأة بطاعة الله ستين سنة، ثم يحضرهما الموت، فيضاران في الوصية، فتجب لهما النار» . ثم قرأ أبو هريرة {من بعد وصية يوصى بها أو دين غير مضار} [النساء: 12] إلى قوله {وذلك الفوز العظيم} [النساء: 13] رواه أحمد، والترمذي، وأبو داود، وابن ماجه
«فيضاران في الوصية» ) من المضارة أي: يوصلان الضرر إلى الوارث بسبب الوصية للأجنبي بأكثر من الثلث، أو بأن يهب جميع ماله لواحد من الورثة كيلا يرث وارث آخر من ماله شيئا، فهذا مكروه وفرار عن حكم الله تعالى، ذكره ابن الملك، وفيه: أنه لا يحصل بهما ضرر لأحد، اللهم إلا أن يقال معناه فيقصدان الضرر، وقال بعضهم: كان يوصي لغير أهل الوصية أو يوصي بعدم إمضاء ما أوصى به حقا بأن ندم من وصيته أو ينقض بعض الوصية ( «فتجب لهما النار» ) أي: ذهبت والمعنى يستحقان العقوبة، ولكنهما تحت المشيئة."
(کتاب البیوع، باب الوصیة،5/ 2039، ط:دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101269
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن