بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے انتقال کرجانے کی صورت میں عدت کا حکم


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ شوہر کے انتقا   ل کے بعد اس کی اہلیہ پر عدت ہر حال میں ضروری ہے یا صرف جو عورت حمل سے ہو یا حمل کا شبہ ہو (عورت اس عمر میں ہو کہ اس کی اولاد ہونا متوقع ہو)  اس حال میں؟

جواب

واضح رہے کہ شوہر کے انتقال کے بعد اس کی اہلیہ   پر ہر حال میں عدت کرنا  ضروری ہے  چاہے وہ حمل سے ہو  یا نہ ہو، ہر صورت میں عدت گزارنا  لازمی ہے،  اگر  عورت  حاملہ نہ   ہو تو شوہر کی وفات اگر چاند کی پہلی کو ہوئی ہو تو ایسی صورت میں  اس کی عدت   چار مہینہ دس دن ہوگی ،بصورتِ دیگر ایک سو تیس دن (عدت کے)پورے کرے گی،  اور اگر عورت حمل سے  ہو  تو اس کی عدت وضع حمل یعنی بچہ جننے سے پوری ہوگی۔

بدائع الصنائع  میں ہے:

"وأما عدة الأشهر فنوعان: نوع يجب بدلا عن الحيض، ونوع يجب أصلا بنفسه...وأما الذي يجب أصلا بنفسه فهو عدة الوفاة، وسبب وجوبها الوفاة قال الله تعالى {والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا يتربصن بأنفسهن أربعة أشهر وعشرا} [البقرة: 234] ، وأنها تجب لإظهار الحزن بفوت نعمة النكاح إذ النكاح كان نعمة عظيمة في حقها فإن الزوج كان سبب صيانتها، وعفافها، وإيفائها بالنفقة، والكسوة، والمسكن فوجب عليها العدة إظهارا للحزن بفوت النعمة، وتعريفا لقدرها، وشرط وجوبها النكاح الصحيح فقط فتجب هذه العدة على المتوفى عنها زوجها، سواء كانت مدخولا بها أو غير مدخول بها، وسواء كانت ممن تحيض أو ممن لا تحيض؛ لعموم قوله - عز وجل - {والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا يتربصن بأنفسهن أربعة أشهر وعشرا} [البقرة: 234]"

[كتاب الطلاق، ج: 3، ص:192 ط: دار الكتب العلمية]

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله وإن كانت) أي المتوفى عنها حاملا فعدتها أن تضع حرة كانت أو أمة كالمطلقة...وفي موطأ مالك عن سليمان بن يسار أن عبد الله بن عباس وأبا سلمة بن عبد الرحمن بن عوف اختلفوا في المرأة تنفس بعد زوجها بليال، فقال أبو سلمة: إذا وضعت ما في بطنها فقد حلت، وقال ابن عباس: آخر الأجلين، فقال أبو هريرة - رضي الله عنه -: أنا مع ابن أخي: يعني أبا سلمة، فأرسلوا كريبا مولى ابن عباس إلى أم سلمة زوج النبي - صلى الله عليه وسلم - يسألها عن ذلك، فأخبرهم أنها قالت: «ولدت سبيعة الأسلمية بعد وفاة زوجها بليال، فذكرت ذلك لرسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال: قد حللت فانكحي من شئت."

[كتاب الطلاق، باب العدة ج:4 ص:314، ط: دار الفكر ]

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308101312

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں