بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موٹر سائیکل کو کمیٹی کی صورت میں فروخت کرنے کا حکم


سوال

ہم نے ایک نیا کاروبار کرنے کا سوچا ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو کہتے ہیں کہ آپ ہر ماہ 6000 روپے دیں اور آپ 2 سال تک 6000 روپے دیتے رہیں گے، ہر ماہ قراندازی ہوگی اور تمام لوگوں کے نام لکھ کر قرعہ اندازی کی جائے گی، جس کا نام آئے گا اس کو موٹر سائیکل دی جائے گی، جس کا نام پہلے مہینے آ گیا، اس کو موٹر سائیکل دے دی جائے گي اور اس کے بعد وہ 2 سال تک قسطيں ادا كرے گا، جو کہ 144000 بنتے ہیں، ہمیں موٹر سائکل 120000 تک کي مل جائے گی، جب کہ ہم اس شخص سے 144000 ليں گے، کیا ایسا کرنا درست ہے؟ حلال ہے؟ یا حرام؟

یعنی موٹر سائیکل 120000 روپے کی خرید کر 144000 روپے کی فروخت کی جاتی ہے اور یہ بات پہلے ہی واضح کر دی جاتی ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر ہر خریدار کے ساتھ باقاعدہ خرید و فروخت کا معاملہ کر کے اسے موٹر سائیکل کی کل قیمت بتا دی جائے، اور ہر خریدار  موٹر سائیکل کی کل قیمت ادا کرے اور قرعہ اندازی کی بنیاد پر اُس کو موٹر سائیکل دی جائے تو یہ معاملہ یا کاروبار کی یہ صورت درست ہو گی۔ 

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"تجوز الزيادة في الثمن المؤجل عن الثمن الحال. كما يجوز ذكر ثمن المبيع نقداً وثمنه بالأقساط لمدد معلومة. ولا يصح البيع إلا إذا جزم العاقدان بالنقد أو التأجيل. فإن وقع البيع مع التردد بين النقد والتأجيل بأن لم يحصل الاتفاق الجازم على ثمن واحد محدد فهو غير جائز شرعاً ... إذا تأخر المشتري المدين في دفع الأقساط عن الموعد المحدد فلا يجوز إلزامه أي زيادة على الدين بشرط سابق أو بدون شرط لأن ذلك ربا محرم." 

(القسم الرابع، الباب الثانی، البیع بالتقسیط، جلد:7، صفحہ:5052، طبع:دار الفکر) 

الفقہ الیسر فی ضوء الکتاب والسنۃ میں ہے:

"البيع بالتقسيط:

هو بيع السلعة إلى أجل محدد، يُقَسَّط فيه الثمن أقساطاً متعددة، كلُّ قسط له أجل معلوم يدفعه المشتري ...يشترط لصحة بيع التقسيط إضافة إلى شروط البيع المتقدمة ما يلي:

1 - أن تكون السلعة بحوزة البائع وتحت تصرفه عند العقد، فلا يجوز لهماالاتفاق على ثمنها، وتحديد مواعيد السداد والأقساط، ثم بعد ذلك يشتريها البائع ويسلمها للمشتري، فإن هذا محرم؛ لقوله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: (لا تبع ما ليس عندك).

2 - لا يجوز إلزام المشتري -عند العقد أو فيما بعد- بدفع مبلغ زائدٍ على ما اتفقا عليه عند العقد في حال تأخره عن دفع الأقساط؛ لأن ذلك رباً محرم.

3 - يحرم على المشتري المليء المماطلة في سداد ما حَلَّ من الأقساط.

4 - لا حقَّ للبائع في الاحتفاظ بملكية المبيع بعد البيع، ولكن يجوز له أن يشترط على المشتري رهنَ المبيع عنده؛ لضمان حقه في استيفاء الأقساط المؤجلة."

(کتاب المعاملات، الباب الاول، المسالۃ التاسعۃ؛ البیع باللتقسیط، جلد:1، صفحہ: 219، طبع: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100866

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں