بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 جُمادى الأولى 1446ھ 02 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

موٹر سائیکل کی انشورنس کرانا


سوال

موٹر سائیکل کی انشورنس کرانا جائز ہے ؟

جواب

مروجہ انشورنس  کی تمام کمپنیوں کا معاملہ بھی  بینک کے معاملات کی طرح ایک سودی معاملہ ہے،  دونوں میں صرف شکل وصورت کا فرق ہے، نیز انشورنس کے اندر  "سود" کے ساتھ "جوا" بھی پایا جاتا ہے، اور اسلام میں یہ دونوں حرام ہیں، ان کی حرمت قرآنِ کریم کی واضح اور قطعی نصوص سے ثابت ہے، لہذا انشورنس کی پالیسی لینا ناجائز اور حرام ہے۔

انشورنس میں   "سود" اس اعتبار سے ہے کہ حادثہ کی صورت میں جمع شدہ رقم سے زائد  رقم ملتی ہے اور زائد رقم سود ہے،  اور "جوا" اس اعتبار سے ہے کہ بعض صورتوں  میں اگر حادثہ وغیرہ نہ ہوتو  جمع شدہ رقم بھی واپس نہیں ملتی، انشورنس کمپنی اس رقم کی مالک بن جاتی ہے۔

اسی طرح اس میں  جہالت اور غرر ( دھوکا) بھی  پایا جاتا ہے،  اور جہالت اور غرر والے معاملہ کو شریعت نے  فاسد قرار دیا ہے، لہذا کسی بھی قسم (گھر، زندگی، گاڑی، موٹر سائیکل  وغیرہ)کا  انشورنس کرنا  اور کرانا اور انشورنس کمپنی کا ممبر بننا شرعاً ناجائز  اور حرام ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾ [المائدة: 90]

صحیح مسلم  میں ہے:

"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اٰكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»."

( کتاب المساقات ، ج:3، ص: 1219، ط:دار احیاء التراث ، بیروت)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر."

( کتاب البیوع  والأقضیة،ج:4،ص:483،  ط: مکتبة رشد، ریاض)

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب مهم فيما يفعله التجار من دفع ما يسمى ‌سوكرة وتضمين الحربي ما هلك في المركب.

وبما قررناه يظهر جواب ما كثر السؤال عنه في زماننا: وهو أنه جرت العادة أن التجار إذا استأجروا مركبا من حربي ‌يدفعون له أجرته، ويدفعون أيضا مالا معلوما لرجل حربي مقيم في بلاده، يسمى ذلك المال: ‌سوكرة على أنه مهما هلك من المال الذي في المركب بحرق أو غرق أو نهب أو غيره، فذلك الرجل ضامن له بمقابلة ما يأخذه منهم، وله وكيل عنه مستأمن في دارنا يقيم في بلاد السواحل الإسلامية بإذن السلطان يقبض من التجار مال السوكرة وإذا هلك من مالهم في البحر شيء يؤدي ذلك المستأمن للتجار بدله تماما، والذي يظهر لي: أنه لا يحل للتاجر أخذ بدل الهالك من ماله لأن هذا التزام ما لا يلزم."

(باب المستأمن، ‌‌فصل في استئمان الكافر، ج:4، ص:170، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100759

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں