بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ کے لیے دورانِ عدت ملازمت پر جانے کا حکم


سوال

طلاق کے بعد عورت کے عدت کے مسائل کیاہیں؟اگر عورت نوکری کرتی ہو،گھر کو چلاتی ہو تو کیاکرے؟

جواب

واضح رہے کہ عدت کے دوران مطلقہ عورت کا خرچہ اس کے شوہر پر لازم ہوتاہے،اس دوران عورت کو بغیر شدیدجانی ومالی نقصان کے اندیشے کے گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی ،لہٰذا اگر عورت اپنی ملازمت سے رخصت لے کر عدت کے ایام گھر پر گزارسکتی ہیں تو عدت میں ملازمت کے لیے جاناجائزنہیں ہوگا،ہاں اگرمطلقہ عورت كا شوہر اسے عدت کے دوران خرچہ نہیں دے رہا،اس کے پاس آمدن کا یا گزارے کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے، اور اس ملازمت سے عدت کے ایام کی چھٹی لینا ممکن نہیں ہے اور ملازمت ترک کرنے کی صورت میں تنگ دستی اور معاشی پریشانی کا یقین ہےتو پردے کے ساتھ دن کے اوقات میں ملازمت پر جانے کی گنجائش ہے،رات (غروب آفتاب) سے پہلے پہلے گھر واپس لوٹنا ضروری ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا تخرجان منه (إلا أن تخرج أو ينهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه....

قال في الفتح: والحاصل أن مدار حل خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره، فمتى انقضت حاجتها لايحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها. اهـ. وبهذا اندفع قول البحر إن الظاهر من كلامهم جواز خروج المعتدة عن وفاة نهارا ولو كان عندها نفقة، وإلا لقالوا: لاتخرج المعتدة عن طلاق، أو موت إلا لضرورة فإن المطلقة تخرج للضرورة ليلا، أو نهارًا اهـ.
ووجه الدفع أن معتدة الموت لما كانت في العادة محتاجة إلى الخروج لأجل أن تكتسب للنفقة قالوا: إنها تخرج في النهار وبعض الليل، بخلاف المطلقة. وأما الخروج للضرورة فلا فرق فيه بينهما كما نصوا عليه فيما يأتي، فالمراد به هنا غير الضرورة، ولهذا بعدما أطلق في كافي الحاكم منع خروج المطلقة قال: والمتوفى عنها زوجها تخرج بالنهار لحاجتها ولا تبيت في غير منزلها، فهذا صريح في الفرق بينهما، نعم عبارة المتون يوهم ظاهرها ما قاله في البحر، فلو قيدوا خروجها بالحاجة كما فعل في الكافي لكان أظهر."

(كتاب الطلاق‌‌،باب العدة،‌‌فصل في الحداد،ج:3،ص:536،ط:سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144407100973

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں