بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

معتکف کے لیے بازار سے گھر کا سودا لانا


سوال

معتکف بازار سے گھر کے لیے ضروری سودا سلف لا سکتا ہے یا نہیں،  جب کہ گھر میں دوسرا کوئی موجود نہیں, مجبوری ہے؟

جواب

معتکف کے لیے بازار جا کر گھر کے لیے ضروری سودا سلف لانا جائز نہیں، اس سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا، البتہ مسجد میں رہتے ہوئے بذریعہ فون یا کسی اور ذریعہ سے خرید و فروخت کرکے گھر تک سودا لے جانے کی ترتیب بنانا جائز ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (2 / 448):
"(وخص) المعتكف (بأكل وشرب ونوم وعقد احتاج إليه) لنفسه أو عياله فلو لتجارة كره (كبيع ونكاح ورجعة) فلو خرج لأجلها فسد لعدم الضرورة".
و في الرد:

"(قوله: لعدم الضرورة) أي إلى الخروج حيث جازت في المسجد وفي الظهيرية، وقيل يخرج بعد الغروب للأكل والشرب اهـ وينبغي حمله على ما إذا لم يجد من يأتي له به فحينئذ يكون من الحوائج الضرورية كالبول، بحر". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144109202075

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں