بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

موت کے وقت پسینہ آنا


سوال

1۔ لوگ کہتے ہیں  کہ روح نکلتے وقت جب کسی پر پسینہ آجاۓ ،تو یہ اس کیےجنتی ہونےکی نشانی ہے اور اگر کوئی اس طرح کی آوز نکالتا ہو جس طرح جانور ذبح کے وقت نکالتے ہیں ،تو یہ اس کےجہنمی ہونے کی نشانی ہے ،کیا یہ بات درست ہے؟

2۔بچے کا ماں باپ سے پیسے چھپانا ، یا سودا وغیرہ سے باقی پیسے جیب میں ڈالنا  جائز ہے یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔ 

جواب

1۔واضح ر ہے کہ  مسلمان   پر دنیا میں جو تکالیف آتی ہیں ،ان کی تین وجوہات ہو سکتی ہیں1۔ درجات کی بلندی،2۔گناہوں کی سزا 3۔اللہ تعالی کی طرف  گناہوں پرسے تنبیہ ۔حالت نزع میں جو  تکلیف ہوتی ہے،وہ بھی تکالیف ہی کی ایک قسم ہے،جس کی وجہ مذکورہ وجوہات میں سے کوئی ایک  ہوسکتی ہے،تاہم  جو مسلمان ظاہر شریعت کا پابند ہو،اس کے حق میں موت  کی سختی  کو اس کی بد اعمالیوں کا نتیجہ قرار نہیں دیا جاسکتا،  بلکہ اس  پر اللہ رب العزت کی جانب سے نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔

چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

"عن عائشة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل عليها ‌وعندها ‌حميم لها يخنقه الموت، فلما رأى النبي صلى الله عليه وسلم ما بها قال لها :لا تبتئسي على حميمك، فإن ذلك من حسناته"

(سنن ابن ماجہ ،باب ماجاء فی المؤمن یوجر فی النزع،  1 / 467ط:دار احیاء الکتب العربیہ)

ترجمہ :"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی  ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے، اس وقت ان کے پاس ان کا ایک قریبی رشتہ دار بھی تھا،جس کا دم گھٹ رہا تھا(موت قریب تھی)، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پریشانی میں دیکھا تو  فرمایا: اپنے رشتہ دار پر غمگین مت ہونا،  کیوں کہ یہ بھی ان کی نیکیوں میں سے ہے۔ "

(سنن ابن ماجہ(مترجم)495/1 ط:مکتبۃ العلم)

ایک اور روایت میں ہے:

"وعن عائشة رضي الله عنها قالت: ما أغبط أحدا بهون موت بعد الذي رأيت من شدة موت رسول الله صلى الله عليه وسلم. رواه الترمذي والنسائي."

(‌‌ مشکاۃ المصابیح كتاب الجنائز،باب عيادة المريض وثواب المرض،492/1ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ :"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت  ہے کہ جب سے  میں  نےرسول اللہ ﷺ کی موت کی سختی دیکھی ہے،اس کے بعد میں کسی کے لیے موت کی آسانی کی تمنا نہیں کرتی تھی۔"

(مظاہر حق،جنازے کا بیان،58/2 ط:مکتبۃ العلم)

 مذکورہ احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نزاع کے وقت ہونے والی سختی مرنے والے مسلمان( جو ظاہر شریعت کا پابند ہو) کی بد اعمالیوں کانتیجہ نہیں سمجھنا چاہیے،اسی طرح روح کا آسانی سے نکلناکسی کے جنتی ہونے کی علامت ہونا ضروری نہیں، باقی موت كے وقت مومن كو پسینہ آنے كا ذكر احاديث ميں ملتا ہے،جس کی شارحين حديث نے مختلف توجیہات بیان کی ہیں،ایک توجیہ کے مطابق یہ(حقیقی) مسلمان کے لیے اچھے خاتمہ کی علامت ہے۔

2۔بیٹےکا ماں باپ کی اجازت کے بغیر  ان کا مال استعمال کرنا جائز نہیں،البتہ اگر صراحتاً یادلالۃ اجازت ہو تو پھر جائز ہے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن بريدة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -:  «المؤمن يموت ‌بعرق الجبين»  قيل: هو عبارة عن شدة الموت، وقيل: هو علامة الخير عند الموت. قال ابن الملك: يعني يشتد الموت على المؤمن بحيث يعرق جبينه من الشدة لتمحيص ذنوبه أو لتزيد درجته، وقال التوربشتي: فيه وجهان: أحدهما: ما يكابده من شدة السياق التي يعرق دونها الجبين، والثاني: أنه كناية عن كد المؤمن في طلب الحلال وتضييقه على نفسه بالصوم والصلاة حتى يلقى الله تعالى، والأول أظهر. (رواه الترمذي) وقال: حسن نقله ميرك. (والنسائي وابن ماجه) قال: ورواه الحاكم وقال: على شرطهما وأقره الذهبي."

(باب تمنی الموت وذكره،الفصل الثانی،162/3 ط:دارالفکر)

مشکاۃ المصابیح میں روایت ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(کتاب البیوع،باب الغصب والعاریۃ،2 / 889ط:المکتب الاسلامی۔بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101606

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں