بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موت کے بعد ملنے والی پنشن اور دیگر فنڈز کا حکم


سوال

میرا بیٹا فوج میں ملازم تھا اور دورانِ ملازمت کینسر کا مریض ہوگیااور کافی علاج کے بعدفوج کی طرف سے2/9/2020کو اس کا میڈیکل بورڈ ہوگیا ،یعنی اس کو ریٹائرکردیا گیا،پھر اس کے بعد فوج کے ادارہ کی طرف سے اس کو یہ بات کہی گئی کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کو جو پنشن ملنی ہے تو آپ اپنی زندگی میں ہی کسی کو نومینیٹ کردیں کہ کس کے نام سے وہ پنشن جاری کی جائے،تو اس نے یہ کہا کہ 75فیصد پنشن میری بیوی کو اور25فیصد میری والدہ کو دی جائے،اب 13/11/2020کو اس کا انتقال ہوگیا اوراس کی وفات کےبعد24لاکھ روپے اس کی پنشن آئی ہے،جس میں سے 75فیصد سرکاری کاغذات میں اس کی بیوہ کے نام سے آئی ہے اور 25فیصد اس کی والدہ کے نام سے۔

اب سوال(1) :یہ ہے کہ وہ 24لاکھ روپے اس بیٹے کے ورثاء کے درمیان تقسیم ہوں گے یا بیٹے کے کہنے کے مطابق75فیصدحصہ اس کی بیوہ کواور25فیصدحصہ اس کی والدہ کو ملے گا؟

(2):پنشن اور دیگر ما بعد الموت ملنے والی رقم کے حوالے سے شریعت کا کلی ضابطہ اور اصول کیا ہے؟کیا وہ عطیہ ہوتی ہے یا وراثت؟

جواب

1۔واضح رہےکہ کسی شخص کی وفات کے بعدحکومت یا متعلقہ ادارے کی طرف سےاس کی پنشن کی رقم جس کسی کے نام سےجاری ہوتی ہے، وہی اس کا مالک ہوتا ہے،اس میں وراثت کے احکام جاری نہیں ہوتے،کیوں کہ  وہ پنشن کی رقم حکومت یا متعلقہ ادارے کی طرف سے ایک قسم کا عطیہ اور انعام ہوتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب سائل کے  بیٹے کی وفات کے بعد اس کی 75فیصد پنشن اس کی بیوہ کے نام سے اور25فیصدپنشن اس کی والدہ کے نام سے جاری ہوئی ہے،تو وہ پنشن اسی فیصد کے حساب سے مرحوم کی بیوہ اور والدہ کی ملکیت ہوگی،یعنی اس پنشن کا 75فیصد حصہ مرحوم کی بیوہ کو اور25فیصد حصہ اس کی والدہ کوملے گا،اس کو مرحوم کے ترکہ میں شمار نہیں کیا جائے گا۔

2۔کسی شخص کی وفات کے بعد متعلقہ ادارے یا حکومت کی طرف سےجو مختلف قسم کے فنڈ زجاری ہوتے ہیں،مثلاً پنشن،گریجویٹی فنڈ،بینوولنٹ فنڈ،جی پی فنڈاورپراویڈنٹ فنڈوغیرہ،ان کے عطیہ اور ترکہ ہونے کے بارے میں شرعی ضابطہ یہ ہے کہ جو مال بوقتِ وفات میت کی ملکیت میں داخل ہو،جیسے کہ جی پی فنڈاورپراویڈنٹ فنڈوغیرہ،وہ ترکہ میں شمار ہوگااور جو مال بوقتِ وفات میت کی ملکیت میں نہ ہو،بلکہ اس کی وفات بعد حکومت یا متعلقہ ادارے کی طرف سے اس کے ورثاء میں سے کسی کے نام پرجاری کیا جائے،جیسے کہ گریجویٹی فنڈ،بینوولنٹ فنڈ اور پنشن وغیرہ تو وہ ترکہ شمار نہ ہوگا،بلکہ جس کے نام پر جاری ہوگا،اسی کی ملکیت ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو ‌حق ‌للمورث على ما قال عليه الصلاة والسلام من ترك مالا أو حقا فهو لورثته."

(کتاب الحدود، ج:7، ص:57، ط:سعید)

امداد الفتاوی میں ہے:

"چوں کہ میراث اموالِ مملوکہ میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسان سرکار کا ہے  بدونِ قبضہ مملوک نہیں ہوتا ،لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں  میراث جاری نہیں ہوگی ،سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہے  تقسیم کردے۔"

(ج:4،ص:342،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100269

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں