بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

موت کے بعد انسان قیامت تک کہاں ہوگا؟


سوال

نیک انسان جب مر جاتا هے تو مرنے کے بعد تو جنت کا فیصلہ قیامت کے دن ہوگا تو یہ انسان کہاں جائے گا یا یوں ہی اپنی قبروں میں ہوگا؟

جواب

 انسان کے مرنے کے بعد اس کا تعلق اس ظاہری اور دنیوی عالم سے نہیں رہتا،  بلکہ اس کا تعلق ایک اور عالم سے ہوجاتاہے، جس کوعالمِ برزخ (اورعرفِ عام میں عالمِ قبر) کہتے ہیں، اب جوکچھ اس پرگزرتاہے وہ دنیوی عالم میں نہیں، بلکہ  اس دوسرے عالم میں ہوتاہے اوراس دوسرے عالم کواللہ تعالیٰ نے اپنی حکمتِ بالغہ سے عام انسانوں سے مخفی رکھاہواہے؛ لہٰذا اس پر اچھا یابُرا جو کچھ  گزرتا ہے، اس کا اس  دنیا میں مشاہدہ  عام طور پرنہیں ہوتا، مردہ ہمارے سامنے ہوتا ہے اور اس پر عذاب یاراحت کامعاملہ ہوتاہے؛ مگر اس کے باوجود چوں کہ یہ معاملہ عالمِ برزخ کاہے؛ اس لیے ہم کو محسوس و مشاہد نہیں ہوتا اور ہمارے نہ دیکھنے یا محسوس نہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ مردے کو تکلیف یا راحت محسوس نہیں ہو رہی، بلکہ اسے راحت اور تکلیف بھی محسوس ہوتی ہے، لیکن یہ سب اللہ تعالیٰ نے ہم سے مخفی رکھا ہے، تاکہ ایمان بالغیب باقی رہنے کی بدولت انسان اجر و ثواب کا مستحق بھی ہو اور اس کی آزمائش بھی ہو۔

بہرحال جب انسان کے جسم سے روح نکل جاتی ہے تو  اگر وہ نیک ہے تو   نیک ارواح کا اصل مستقر اور ٹھکانہ "علّییّن" ہے (مگر اس کے درجات بھی مختلف ہیں)، بد ارواح کا اصل ٹھکانا "سجّین" ہے اور ہر روح کا ایک خاص تعلق اس کے جسم کے ساتھ کردیا جاتا ہے، خواہ جسم قبر میں مدفون ہو یا دریا میں غرق ہو، یا کسی درندے کے پیٹ میں، الغرض جسم کے اجزاء جہاں جہاں ہوں گے روح کا ایک خاص تعلق ان کے ساتھ قائم رہے گا اور اسی خاص تعلق کا نام برزخی زندگی ہے، جس طرح سورج کی روشنی سے زمین کا ذرہ چمکتا ہے، اسی طرح روح کے تعلق سے جسم کا ہر ذرہ ”زندگی“سے منور ہوجاتا ہے، اگرچہ برزخی زندگی کی حقیقت کا اس دنیا میں معلوم کرنا ممکن نہیں۔

"علیین" اور "سجین" سے متعلق حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

"سجین، (بکسر سین وتشدید جیم بروزن سکین و سجن سے مشتق ہے) جس کے معنی ”تنگ جگہ“ میں قید کرنے کے ہیں،  "قاموس" میں ہے کہ "سجین" کے معنی:  ”دائمی قید“ کے ہیں اور احادیث وآثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ”سجین“  ایک مقام خاص کا نام ہے اور کفار فجار کی ارواح کا مقام یہی ہے اور اسی مقام میں ان کے اعمال نامے رہتے ہیں، جس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے اعمالنامے اس جگہ میں محفوظ کردیے جاتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس جگہ کوئی ایسی کتاب جامع ہو جس میں تمام دنیا کے کفار و فجار کے اعمال لکھ دیے جاتے ہیں۔ اور  یہ مقام کس جگہ ہے اس کے متعلق حضرت برا بن عازب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ: سبحین ساتویں زمین کے نچلے طبق میں ہے اور "عِلِّیِّیْن" ساتویں آسمان میں زیرِ عرش ہے۔ (اخرجہ البغوی بسندہ واخرجہ احمد وغیرہ از مظہری) بعض روایات حدیث میں یہ بھی ہے کہ "سبحین" کفار و فجار کی ارواح کا مستقر ہے اور "علیین"، مومنین متقین کی اروح کی جگہ ہے"۔(معارف القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200834

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں