ایک شخص ایک بار اپنی والدہ کے گھر گیا تو، کچھ روز قبل اس شخص کی بیوی اور اس کی والدہ کے درمیان کچھ جھگڑا ہوا تھا ،تو جب وہ شخص والدہ سے ملتا ہے تو اس کی والدہ بولتی ہے کہ آپ کی بیوی نے مجھ سے جھگڑا کیا ،تو اس وقت اس شخص کا کزن بھی موجود تھا ،تو وہ شخص اپنی زبان بلوچی میں کہتا ہے کہ (ما آہی یا راں طلاقاں دیاں) تو اس جملہ سے دو معنی نکلتے ہیں ،طلاقیں دوں گا یا دیتا ہوں ،تو موقع محل کے مطابق اس کے کزن اور والدہ نے کہا نہیں طلاقیں نا دو ،تو وہ شخص کہتا ہے نہیں ابھی دیتا ہوں تو اسی وقت وہ گھر گیاتو بیوی اس کی تلاوت کر رہی تھی، تو اس شخص نے اتنا کہا آج بچ گی ،میری نیت اور تھی یعنی طلاق دینا چاہتا تھا،تو اس شخص کو ایک سال بعد بیان وغیرہ سننےسے وسوسہ آیا کہ طلاق دینے کی نیت کا اظہار کرے ،یا طلاق دینے کا ارادہ ظاہر کرے، لیکن اس شخص کو پورا یقین ہے کہ میں نے اس احتمال والے جملے جیسےدیتا ہوں اور دوں گا، دونوں صورتوں میں مستقبل میں طلاق دینے کا اظہار ہی تھا، والدہ کے سامنے جو جملے اپنی زبان بلوچی میں اس شخص نے بولے ،باقی وہ شخص کہتا اس جملے سے طلاق وغیرہ دینا کچھ اس جملے سے دی نہیں اور دو تین مقامی علماء بلوچی زبان کے مطابق یہ جملہ صرف مسقبل میں طلاق کے اظہار کیلے بولا جاتا ہے،تو اس صورت میں طلاق واقع ہو جاتی ہے یا نہیں؟
صورت مسئولہ میں اگر واقعۃً اس شخص نے جو جملہ بولا تھا اس سے طلاق دینے کے ارادہ کا اظہار تھا، طلاق دینا مقصود نہیں تھا ،تو اس جملے سےکوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"بخلاف قوله طلقي نفسك فقالت أنا طالق أو أنا أطلق نفسي لم يقع لأنه وعد جوهرةما لم يتعارف أو تنو الإنشاء فتح."
(رد المحتار،باب تفويض الطلاق،كتاب الطلاق،ج:3،ص:319،ط:دار الفكر - بيروت)
وفیہ ایضاً:
"لأن المضارع حقيقة في الحال مجاز في الاستقبال كما هو أحد المذاهب، وقيل بالقلب، وقيل مشترك بينهما، وعلى الاشتراك يرجع هنا إرادة الحال بقرينة كونه إخبارا عن أمر قائم في الحال وعبارة الجوهرة: وإن قال طلقي نفسك فقالت أنا أطلق لم يقع قياسا واستحسانا."
(رد المحتار،باب تفويض الطلاق،كتاب الطلاق،ج:3،ص:319،ط:دار الفكر - بيروت)
فقط واللہ اعلم۔
فتوی نمبر : 144509101661
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن