بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قصہ ’’ایک مرتبہ حضرت موسیٰؑ کے پیٹ میں درد ہوا تو انھوں نے اللہ سے شفاء مانگی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو جنگل کے کسی درخت کے پتے کھانے ... ألخ‘‘ کی تحقیق


سوال

 ایک مرتبہ حضرت موسیٰؑ کے پیٹ میں درد ہوا تو انہوں نے  اللہ سے شفاء مانگی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو جنگل کے کسی درخت کے پتے کھانے کا حکم دیا تو وہ کھاتے ہی فورا ٹھیک ہوگئے ، پھر دوبارہ ان کو پیٹ میں درد ہوا تو حضرت موسیٰؑ  نے اللہ سے  دعا مانگے  بغیر وہی پتے جاکر کھالیے  تو ان کو ان پتوں کے کھانے سے شفاء نہیں ملی۔

یہ بات کہاں تک صحیح ہے ؟ اس بات کا حوالہ بھی مطلوب ہے ۔

جواب

یہ قصہ علامہ رازی رحمہ اللہ (المتوفى: 606ھ) نے’’تفسیر کبیر‘‘ میں   او رشیخ نظام الدین  رحمہ اللہ(المتوفى: 850ھ)  نے ’’غرئب القرآن ورغائب الفرقان‘‘(المعروف بتفسیر نیسابور) میں بغیر کسی سند کےدرج ذیل الفاظ میں نقل فرمایا ہے :

" مَرِضَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ وَاشْتَدَّ وَجَعُ بَطْنِهِ، فَشَكَا إِلَى اللَّهِ تَعَالَى، فَدَلَّهُ عَلَى عُشْبٍ فِي الْمَفَازَةِ، فَأَكَلَ مِنْهُ فَعُوفِيَ بِإِذْنِ اللَّهِ تَعَالَى، ثُمَّ عَاوَدَهُ ذَلِكَ الْمَرَضُ فِي وَقْتٍ آخَرَ فَأَكَلَ ذَلِكَ الْعُشْبَ فَازْدَادَ مَرَضُهُ، فَقَالَ: يَا رَبِّ، أَكَلْتُهُ أَوَّلًا فَانْتَفَعْتُ بِهِ، وَأَكَلْتُهُ ثَانِيًا فَازْدَادَ مَرَضِي، فَقَالَ: لِأَنَّكَ فِي الْمَرَّةِ الْأُولَى ذَهَبْتَ مِنِّي إِلَى الْكَلَأِ فَحَصَلَ فِيهِ الشِّفَاءُ، وَفِي الْمَرَّةِ الثَّانِيَةِ ذَهَبْتَ مِنْكَ إِلَى الْكَلَأِ فَازْدَادَ الْمَرَضُ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الدُّنْيَا كُلَّهَا سُمٌّ قَاتِلٌ وَتِرْيَاقُهَا اسْمِي؟ ".

(التفسير الكبير،سورۃ الفاتحۃ، الْبَابُ الْحَادِيَ عَشَرَ فِي بَعْضِ النُّكَتِ الْمُسْتَخْرَجَةِ من قولنا (بسم الله الرحمن الرحيم)، (1/ 152)،  ط/ دار إحياء التراث العربي - بيروت)

(تفسير النيسابورى، سورۃ الفاتحۃ، (1/ 79)، ط/ دار الكتب العلميه - بيروت)

  البتہ بعض  کتب میں  اسرئیلی روایت کے طو پر ایک اور واقعہ  ملتا ہے ، جسے بعض حضرات کی طرف سے اس واقعہ کی اصل قرار دیا گیا ہے، و ہ واقعہ ملاحظہ فرمائیں:

’’حضرت موسي علیہ السلام کو ایک بار کوئی بیماری لاحق ہوئی، تو قوم بنی اسرائیل کے لوگ ان کے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ فلاں چیز سے اس کا علاج کر لیں تو آپ کو افاقہ ہوگا،  تو آپ نے ان کے جواب میں فرمایا کہ میں علاج نہیں کروں گایہاں تک کہ خدا تعالي مجھے بغیر دوا کے شفا عطا فرمائیں، پس پھر ان کی بیماری بڑھتی گئی، پھر انہوں (قوم بنی اسرائیل ) نے موسی علیہ السلام سے کہا کہ اس بیماری کی دوا تو مشہور  اور مجرّب ہے، ہم بھی اس سے علاج کرتے ہیں، تو شفا پاتے ہیں، تو موسی علیہ السلام نے فرمایا کہ نہیں  میں علاج نہیں کروں گا،اور ان کی بیماری قائم رہی،  پھر خداتعالي نے موسی علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ قسم ہے میری عزت اور جلال کی،  میں آپ کو تب تک شفا نہیں دوں گا جب تک آپ اس چیز سے علاج نہیں کرلیتے  جس کا وہ لوگ آپ سے ذکر کر رہے ہیں،پھر  موسی علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ کہ میرا علاج کرو اس سے جو تم لوگ ذکر کررہے تھے، تو انہوں نے موسی علیہ السلام کا علاج کیا تو آپ ٹھیک ہوگئے،تو اس معاملہ کو       موسی علیہ السلام   نے اپنے دل میں کچھ  محسوس کیا، تو اللہ تعالي نے وحی فرمائی کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ مجھ پر توکل کرکے آپ   میری حکمت کو باطل کردیں؟     میرے علاوہ کس نے جڑی بوٹیوں میں نفع کو رکھا؟۔   ‘‘

   مذکورہ واقعہ کو  بعض علما ءسےشيخ ابو طالب مكي رحمه الله  (المتوفى: 386ھ) نے اور اسرائیلیات کی قبیل سے بعض علما ءسے امام غزالي رحمه الله  (المتوفى: 505ھ)  نے نقل فرمایا ہے، امام غزالی رحمہ اللہ کے  نقل کردہ الفاظ پیش خدمت ہیں: 

"وذكر بعض العلماء في الإسرائيليات: أن موسى عليه السلام اعتل بعلة، فدخل عليه بنو إسرائيل، فعرفوا علته، فقالوا له: لو تداويت بكذا لبرئت، فقال: لا أتداوى حتى يعافيني هو من غير دواء، فطالت علته، فقالوا له: أن دواء هذه العلة معروف مجرّب، وانا نتداوى به فنبرأ، فقال: لا أتداوى، وأقامت علته، فأوحى الله تعالى إليه: وعزتي وجلالي! لا أبرأتك حتى تتداوى بما ذكروه لك، فقال لهم: داووني بما ذكرتم، فداووه، فبرأ، فأوجس في نفسه من ذلك، فأوحى الله تعالى إليه أردت أن تبطل حكمتي بتوكلك علي، من أودع العقاقير منافع الأشياء غيري. " 

(قوت القلوب في معاملة المحبوب لأبي طالب، ذكر التداوي وتركه للمتوكل، (2/ 34)، ط/ دار الكتب العلمية - بيروت)

(إحياء علوم الدين، بيان آداب المتوكلين إذا سرق متاعهم، (4/ 285)، ط/ دار االمعرفة - بيروت)

اور يهي واقعه امام غزالي رحمه الله   نے ’’وَرُوِيَ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ يعني  اسرائیلی روایت ہونے کی صراحت کے بغیر بھی نقل فرمایا ہے۔

(سُلْوةُ العارفين، باب التوكل، (2/ 189)، ط/ دار الكتب العلمية ، بيروت)

بعد ازاں  اس واقعہ کو کئی کتب  میں بھی  نقل کیا گیا ہے، لیکن   اسے سوال میں مذکور واقعہ   کی  اصل  قرار دینا  درست معلوم نہیں ہوتا، کیونکہ اس واقعہ میں کہیں بھی پیٹ درد وغیرہ، اور دوبارہ از خود جڑی بوٹی سے علاج وغیرہ کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے ، بلکہ یہ واقعہ تو سوال میں مذکور واقعہ کے بالکل خلاف ہے کہ موسي علیہ السلام خدا تعالي پر توکل فرماتے ہوئے مجرب جڑی بوٹی سے بھی اپنا علاج نہیں فرما رہے تھے ، پھر خدا تعالي نے انہیں حکم فرمایا کہ اسی کو علاج کے لیے استعمال کریں، تو انہوں نے اسے استعمال فرمایا، جب معاملہ ایسے ہو تو اس واقعہ کو سوا ل میں مذکور واقعہ کا اصل کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔ 

مذکورہ قصہ کو چونکہ  امام غزالی رحمہ اللہ نے بعض علماء كي طرف سے اسرائیلی روایت کی حیثیت  سے نقل فرمایا ہے ۔  اسرائیلی روایات کا حکم ملاحظہ فرمائیں :   

ان روایات کا حکم یہ ہے کہ اگر ان میں کوئی ایسی بات ہو جس کی تصدیق ہمیں قرآن و حدیث سے ملتی ہو تو ہم ایسی روایات کی تصدیق کریں گے اور ان روایات کا بیان کرنا جائز بھی ہوگا، اور جن میں ایسی باتیں ہوں جس کی تصدیق تو ہمیں قرآن و حدیث میں نہ ملتی ہو، لیکن وہ قرآن و حدیث (یعنی شریعت) کے کسی مسلمہ اصول سے ٹکراتی بھی نہ ہوں تو ایسی روایات کا حکم یہ ہے کہ ہم نہ تو ان روایات کی تصدیق کریں گے اور نہ ہی تکذیب کریں گے، البتہ ان روایات کو بیان کرنے کی گنجائش ہے، اور جن روایات میں ایسی باتیں ہوں جو قرآن و حدیث کے مخالف ہوں تو  ہم ان کی تکذیب کریں گے، اور ایسی روایات کو بیان کرنا بھی جائز نہیں ہوگا۔

 لہذا  سوال میں مذکور قصہ جو کہ بغیر کسی سند کے نقل ہوا ہے  جب تک  صحیح طریقے سے ثابت نہ ہوجائےتب تک  اس کے بیان سے اجتناب برتناچاہیے، اور مذکورہ قصہ(جسے بعض حضرات کی طرف سے سوال میں مذکور واقعہ کی اصل قرار دیا گیا ہے) جو اس  سوال والے قصہ کے بالکل برعکس نقل ہواہے ،تو ہم نہ تو اس کی تصدیق کریں گے اور نہ ہی تکذیب ، البتہ اسے مصنف یا کتاب کے حوالے سے بیان کرنے کی گنجائش ہے۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144506102130

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں