بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مورتی کی شکل / تصویر والی چاکلیٹ کھانا


سوال

 اس وقت ایک چاکلیٹ آئی ہے جو مورتی کی شکل میں اس کا استعمال کرنا چاہیے یا نہیں؟

جواب

اگر چاکلیٹ یا کھانے کی کسی اور چیز پر مورتی کی تصویر بنی ہوئی ہوتو اس کا کھانااگرچہ  حرام نہیں ہوگا، لیکن  چوں کہ  جس گھر میں تصویر موجود ہو ، وہاں فرشتہ داخل نہیں ہوتے،  اور یہ چاکلیٹ گھر یا دکان میں موجود  ہوگی تو فرشتوں کی آمد سے مانع  ہوگی، اسی طرح اس چاکلیٹ کے کثرتِ  استعمال کی وجہ سے   عام لوگوں کی دلوں سے اس مورتی  کی قباحت اور شناعت کم ہوجائے گی،  نیز اس کے استعمال میں  اس کے بنانے والے کی حوصلہ افزائی  بھی ہے، جب کہ اس کی حوصلہ شکنی ضروری  ہے ؛کیوں  کہ اس کا بنانا کسی صورت جائز نہیں ہے،  اس لیے  اس چاکلیٹ کے استعمال سے اجتناب کرنا ضروری  ہے۔

نوٹ: بعض روایات میں ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا قصہ مذکور ہے کہ انہوں نے جاہلیت کے دور میں ستو وغیرہ سے بت بنایا اور سفر کے دوران جب بھوک لگی اور کچھ نہ ملا تو اسی میں سے کھاتے رہے، یہاں تک کہ پورا کھالیا، اور یہ قصہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے بیان کیا تو آپ ﷺ اس پر ہنسے، اس قصے سے مذکورہ مسئلے پر استدلال درست نہیں ہوگا، کیوں کہ صحابی کا وہ عمل جاہلیت کے دور 

فیض الباری میں ہے:

"قلتُ: إن المصنف، وإن لم يتضح له سبيل التوفيق، لكني أقول: إن عائشة لما قالت له: «إني اشتريتها لتجلس عليها»، انتقل النبيُّ صلى الله عليه وسلّم من مؤلة التصاوير إلى مسألة عمر التصوير، وذلك لأنه لو سكت عليه لجاز أن يَتوهم أحدٌ أن تلك التصاوير إذا كانت جائزة، فلعله يجوز عملها أيضاً، ولا ريب أنه ينبغي للنبيِّ أن يزيح مثل هذه الأوهام، لئلاتفضي إلى الأغلاط، فنبَّه على أن تلك التصاوير وإن جازت لامتهانها، لكنَّ عملَها حرام، كما إذا لم تكن مُمتنهة.ألا ترى إلى قوله: «إن أصحاب هذه الصور»... إلخ، فلم يقل في التصاوير شيئاً، ولكنه ذكر الوعيدَ فيمن صورها. أما قوله: «و أن الملائكة لاتدخل بيتاً فيه الصور»، فليس حكماً على تلك التصاوير المعينة، بل حكماً على جنسها، وإن لم يتحقق في هذا الفرد."

(فيض الباري شرح البخاري، باب من كره القعود (5/ 112)،ط.دارالكتب العلمية،الطبعة الاولى، 2005م) 

ارشاد الساری میں ہے:

"وأما الصورة التي تمتهن في البساط والوسادة وغيرهما فلا يمتنع دخول الملائكة بسببها، لكن قال الخطابي: إنه عامّ في كل صورة انتهى.وإذا حصل الوعيد لصانعها فهو حاصل لمستعملها لأنها لا تصنع إلا لتستعمل فالصانع سبب والمستعمل مباشر فيكون أولى بالوعيد ويستفاد منه أنه لا فرق في تحريم التصوير بين أن تكون صورة لها ظل أو لا. ولا بين أن تكون مدهونة أو منقوشة أو منقورة أو منسوجة خلافًا لمن استثنى النسج وادّعى أنه ليس بتصوير".

 (إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري«باب التجارة فيما يكره لبسه للرجال والنساء» (4/ 41)،ط. المطبعة الكبرى الأميرية، مصر، الطبعة: السابعة، 1323)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وتكره التصاوير في البيوت لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم عن سيدنا جبريل - عليه الصلاة والسلام - أنه قال: «لاندخل بيتًا فيه كلب أو صورة» ولأن إمساكها تشبه بعبدة الأوثان إلا إذا كانت على البسط أو الوسائد الصغار التي تلقى على الأرض ليجلس عليها فلا تكره لأن دوسها بالأرجل إهانة لها فإمساكها في موضع الإهانة لا يكون تشبها بعبدة الأصنام إلا أن يسجد عليها فيكره لحصول معنى التشبه ويكره على الستور وعلى الأزر المضروبة على الحائط وعلى الوسائد الكبار وعلى السقف لما فيه من تعظيمها".

(بدائع الصنائع:کتاب الاستحسان (5/ 126)،ط.دار الكتب العلمية، الطبعة: الثانية، 1406= 1986م)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144212201912

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں