بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آبائی گاؤں میں مورثی مکان میں جانے کی صورت میں قصر یا اتمام کا حکم


سوال

خوشاب شہر میں میرا آبائی اور مورثی گھر ہے (پردادا) کا، جس میں میرے والدین کا سامان موجود ہے اور میری اہلیہ کا بھی، میں 32  سال سے کراچی میں رہائش پذیر ہو ں، میرا سوال یہ  ہے کہ اگر مجھے جب کبھی وہاں  جانا پڑے (خوشاب  شہر) اور دس  (10)  دن کے اندر واپس کراچی آجاؤں،  تو کیا وہاں مقیم ہوں گا یا مسافرکے درجے میں ہوں گا؟

جواب

 اگر کوئی شخص اپنے وطنِ اصلی سے بیوی، بچے اور سامان وغیرہ لے کر دوسری جگہ منتقل ہوجائے اور  وہیں مستقل  طور پر  اہل وعیال کے ساتھ عمر گزارنے کی نیت کرلے، اور پہلی جگہ پر دوبارہ منتقل ہونے کا ارادہ نہ ہو    تو اس کا پہلا وطنِ اصلی ختم ہوجاتا ہے،  اور دوسری جگہ اس کا وطنِ اصلی بن جاتا ہے، اور  اگر پہلی جگہ  پر بھی موسم کے لحاظ سے آکر رہنے کا ارادہ ہو یا  وطنِ اصلی سے  اہل وعیال کو تو دوسری جگہ  منتقل کرلیا، لیکن پہلے وطن سے بھی تعلق ہے  اس کو ختم کرنے کا ارادہ نہیں ہے، تو   دونوں  جگہیں اس کے وطنِ اصلی شمار ہوں گے ، جب  وہاں جائے گا تو مقیم ہوگا اور جب یہاں آئے گا تب بھی مقیم ہوگا، اور درمیان کے راستے میں مسافر ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل نے خوشاب شہر سے مستقل طور پر تعلق ختم کرکے اس کی وطنیت کو ختم نہیں کیا  (جیسے کہ سوال سے بھی یہی ظاہر ہورہا ہے) ، بلکہ  کراچی میں رہنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی نیت ہے کہ پنجاب کا آبائی علاقہ بھی ہمارا وطن ہے، تو   آپ وہاں مکمل نماز پڑھیں گے، اگرچہ وہاں پندرہ دن سے کم کے لیے ہی کیوں نہ گئے ہوں۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"(قوله: و يبطل الوطن الأصلي بمثله لا السفر و وطن الإقامة بمثله والسفر والأصلي)؛ لأن الشيء يبطل بما هو مثله لا بما هو دونه فلا يصلح مبطلا له وروي أن عثمان - رضي الله عنه - كان حاجًّا يصلي بعرفات أربعًا فاتبعوه فاعتذر، و قال: إني تأهلت بمكة وقال النبي صلى الله عليه وسلم: «من تأهل ببلدة فهو منها» و الوطن الأصلي هو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارا وتوطن بها مع أهله وولده، وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها وهذا الوطن يبطل بمثله لا غير، وهو أن يتوطن في بلدة أخرى وينقل الأهل إليها فيخرج الأول من أن يكون وطنا أصليا حتى لو دخله مسافرا لا يتم قيدنا بكونه انتقل عن الأول بأهله؛ لأنه لو لم ينتقل بهم، ولكنه استحدث أهلا في بلدة أخرى فإن الأول لم يبطل ويتم فيهما وقيد بقوله: بمثله؛ لأنه لو باع داره ونقل عياله وخرج يريد أن يتوطن بلدة أخرى ثم بدا له أن لا يتوطن ما قصده أولا ويتوطن بلدة غيرها فمر ببلده الأول فإنه يصلي أربعا؛ لأنه لم يتوطن غيره، وفي المحيط، ولو كان له أهل بالكوفة، وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة قيل: البصرة لاتبقى وطنا له؛ لأنها إنما كانت وطنا بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطنا له، وقيل: تبقى وطنًا له؛ لأنها كانت وطنًا له بالأهل والدار جميعًا فبزوال أحدهما لايرتفع الوطن كوطن الإقامة يبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر اهـ.

وفي المجتبى نقل القولين فيما إذا نقل أهله ومتاعه وبقي له دور وعقار ثم قال وهذا جواب واقعة ابتلينا بها وكثير من المسلمين المتوطنين في البلاد، ولهم دور وعقار في القرى البعيدة منها يصيفون بها بأهلهم ومتاعهم فلا بد من حفظها أنهما وطنان له لا يبطل أحدهما بالآخر ." 

(کتاب الصلوۃ، باب صلوة المسافر، ج:2، ص:147، ط:مكتبه رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201851

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں