بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موروثی جائیداد پر ایک وارث کا قبضہ کرنا اور دیگر ورثاء کو حصہ نہ دینے کا حکم


سوال

ایک موروثی جائیداد کے کاغذات یعنی اصل فائل کورٹ میں جمع کی تھی، ایک وارث کے پاس اس کی سلپ بھی موجود تھی، اس وارث نے  کورٹ کو وہ سلپ دکھا کر دیگر ورثاء کی رضامندی کے بغیر وہ فائل اپنے قبضہ میں لے لی ہے، اب وہ  جائیداد  کسی اور کے نام کروانی ہے، اس کے لیے فائل کی ضرورت ہے، دیگر ورثاء کے تقاضہ کرنے کے باوجود وہ وارث جس کےپاس فائل ہے، وہ فائل نہیں دے رہا ہے، دیگر ورثاء نے اس وارث سے یہ بھی کہا کہ ’’ آپ ہمیں فائل نہ دو، بلکہ فائل اپنے پاس رکھو، اور ہمارے ساتھ چلے جاؤ‘‘، لیکن وہ وارث اس کام کےلیے بھی راضی نہیں ہے، اب اس صورت میں شریعت اس وارث کے بارے میں کیا کہتی ہے، آیا اس کا یہ فعل درست ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ مرنے والے کی وراثت اس کے تمام ورثاء میں شرعی ضابطہ کے مطابق تقسیم کی جاتی ہے، کسی ایک وارث کا تقسیم سے پہلے ہی کچھ جائیداد پر قبضہ کرلینا اور دیگر ورثاء کے کہنے کے باوجود انہیں حصہ نہ دینا شرعاً جائز نہیں ہے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں جس وارث نے موروثی جائیداد کی فائل اپنے پاس رکھ لی ہے، اور دیگر ورثاء کے کہنے کے باوجود نہ انہیں فائل دینے کےلیے تیار ہے، اور نہ ہی ان کے ساتھ چلنے کےلیے تیار ہے، یہ شرعاً درست نہیں، کسی اور کے حق پر ناجائز قبضہ کرنا یا کسی وارث کو اس کے حق سے محروم کرنا شرعاً درست نہیں، احادیث میں اس پر بڑی وعیدیں آئی ہیں، حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی‘‘،  ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے  ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا‘‘۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ’’من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين‘‘."

(باب الغصب والعاریة،ج:1، ص: 254،  ط: قدیمی)

وفیه أیضاً: 

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ’’من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة‘‘ . رواه ابن ماجه."

  (باب الوصایا، الفصل الثالث، ج:1، ص:266، ط: قدیمی)

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر میں ہے:

"وكل منهما أي كل واحد من ‌الشريكين أو الشركاء شركة ملك أجنبي في نصيب الآخر حتى لا يجوز له التصرف فيه إلا بإذن الآخر كغير الشريك لعدم تضمنها الوكالة."

(كتاب الشركة، ج:1، ص:715، ط:دار إحياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100209

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں