بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مورث سے پہلے انتقال کرنے والے وارث کا حصہ نہیں ہوتا


سوال

میری والدہ کا انتقال 2021 میں ہوا،ان کے ترکہ میں ایک گھرہے،ورثاء میں صرف دو بیٹے ہیں ،ہمارے والد اور والدہ کے والدین کا انتقال والدہ سے پہلےہواتھا،اور ہماری ایک بہن کا انتقال بھی والدہ کی زندگی میں 2017 میں ہوا تھا اس کے ورثاء میں شوہر،اور دو بیٹے ہیں،اب پوچھنا یہ ہے کہ والدہ کی میراث میں اس فوت ہونے والی بہن یا اس کی اولاد کا حصہ ہے یا نہیں ؟اور والدہ کی میراث کیسے تقسیم ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ گھر اگر واقعۃً سائل کی والدہ مرحومہ کا ملکیتی تھاسائل کے والد کا ملکیتی نہیں تھا تو ایسی  صورت میں سائل کی جس بہن کا انتقال  اپنی والدہ کی زندگی میں ہوا تھا تو اس کا یا اس کی اولاد کا سائل کی والدہ کے میراث میں حصہ نہیں ہوگا۔

سائل کی والدہ کی میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحومہ کے ترکہ میں سے ان کے حقوق متقدمہ یعنی تجیہزوتکفین کے اخراجات نکالنے بعد،اگر اس پر کوئی قرض ہوتو اس کو ادا کرنے کے بعد،اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی ترکہ کے ایک تہائی حصہ میں اسے نافذ کرنے کے بعد باقی جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ہربیٹے کو ایک ایک حصہ دیا جائےگا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:2

بیٹا

بیٹا
11

یعنی سو  فیصد میں سے مرحومہ کے ہر بیٹے کو50 فیصد حصہ ملےگا۔

تکملہ ردالمحتار میں ہے:

"وشروطه ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة، أو تقديرا كالحمل والعلم بجهل إرثه."

(کتاب الفرائض ج:7 ص: 349 ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100608

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں