بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ربیع الثانی 1446ھ 09 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

مورث کی زندگی میں انتقال کرجانے والوں کا میراث میں حصہ نہیں ہے


سوال

میری ایک بہن کا انتقال ہوا ہے ،اس کے شوہر ،والدین اور ایک بہن کا انتقال اس(میری مرحومہ بہن) کی زندگی میں ہوچکا ہے،اور اس کی کوئی اولاد نہیں ،فی الحال اس  کے ورثاء میں دو بھائی اور دو بہنیں ہیں؛ اب بات یہ ہے کہ جب ہم مرحومہ کا ذاتی فلیٹ اس کے ورثاء کے نام  ٹرانسفر  کرنے کے لیے سوسائٹی کے آفس میں گئے تھے ،تو انہوں نے کہا کہ وراثت میں اس بہن کا حصہ بھی ہے جس کا پہلے (مرحومہ کی زندگی میں) انتقال ہوچکا تھا، اور اب اس کا حصہ اس کے ورثاء کو ملے گا،لہذا  شریعت کی روشنی میں اصل ورثاء کی نشاندہی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ وارث بننے کے لیے مورث (انتقال کرنے والے) کی موت کے وقت زندہ ہونا شرط ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل کی (مذکورہ مرحومہ ) بہن کے شوہر ، والدین اور ایک بہن کا انتقال اس کی زندگی میں ہوچکا تھا، تو وہ   شرعاً مرحومہ کے وارث شمار نہیں ہوں گے،اسی طرح مرحومہ کی زندگی میں انتقال کرجانے والی بہن کی اولاد وغیرہ بھی شرعاً وارث شمار نہیں ہوں گے،  البتہ مرحومہ کے موجودہ ورثاء مذکورہ دو بھائی اور دو بہنیں ہی شمار ہوں گے۔

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (ثم الأخ لأب وأم ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم ثم ابن الأخ لأب)."

(كتا ب الفرائض، العصبات في الميراث، ج:7، ص:486، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌ويقدم الأقرب فالأقرب منهم)."

(كتاب الفرائض،فصل في العصبات، ج:6، ص:774، ط:سعيد)

وفيه ايضاً:

"بيانه أن شرط الإرث وجود الوارث حيا عند موت المورث."

(كتاب الفرائض، فصل في العصبات، ج:6، ص:769، ط:سعيد)

وفيه ايضاً:

"وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه."

(كتاب الفرائض، ج:6، ص:758، ط:سعيد)

فقط والله اعلم



فتوی نمبر : 144409101460

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں