بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کی زندگی میں انتقال ہونے والے مرحوم بھائی کے لئے رضامندی سے الگ کیے گئے حصہ پر بھائی کا قبضہ کرنا


سوال

ہمارے دادا کا ایک مکان ہے، ہمارے والد صاحب دادا کی زندگی میں ہمارے بچپن میں انتقال کرگئے، پھر ہمیں دادا دادی نے پالا، پھر دونوں کا انتقال ہوا، پہلے دادا کا پھر دادای کا، ان کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں لیکن سب نے کہا یتیم بھائی کا بھی حصہ ہے اس میں، چنانچہ پھوپھیوں (بیٹیوں) کا حصہ نکالنے کے بعد پانچ حصہ کیے، جس میں سے ایک حصہ ہمارے والد کا بھی تھا، وہ ہمارے چھوٹے چچا کے پاس ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس میں ہمارا کوئی حق نہیں ہے، تو کیا ہمارا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟

وضاحت: سب ورثاء کی رضامندی سے یہ حصہ نکالا تھا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل کے دادا کے سب ورثاء نے اپنی رضامندی سے اپنے مرحوم بھائی (سائل کے والد) کے  لیے حصہ الگ کیا تھا تو یہ حصہ اب مرحوم بھائی کے ورثاء کا حق ہے، لہذا سائل کے چچا کا اس حصہ سے متعلق یہ کہنا کہ اس پر مرحوم بھائی کی اولاد کا کوئی حق نہیں درست نہیں، سائل کے چچا پر لازم ہے کہ حق داروں کو ان کا حق ادا کرے۔

قرآن کریم میں ہے:

﴿وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنُ فَارْزُقُوْهُمْ مِّنْهُ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا﴾ [النساء:8]

ترجمہ: اور جب حاضر ہوں تقسیم کے وقت رشتہ دار اور یتیم اور محتاج تو ان کو کچھ کھلا دو اس میں سے اور کہہ دو ان کو بات معقول . ( تفسیر عثمانی)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا ‌لا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه. رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."

(‌‌‌‌كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثانی: 2/ 889، ط: المکتب الاسلامی، بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100476

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں