بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مورث کی زندگی میں فوت ہونے والے وارث کو شرعًا حصہ نہیں ملتا


سوال

میری امی کا انتقال میری نانی سے پہلے ہو گیا تھا میری نانی کے ترکے میں ایک گھر ہے میرے ماموں اس کو فروخت کر کے سب میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں،  میری نانی کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں جن میں سے میری والدہ کا انتقال میری نانی کی زندگی میں ہی ہو گیا تھا اور ایک بیٹے کا انتقال ان کے انتقال کے بعد ہوا ہے، وراثت کی تقسیم کی ترتیب بنا دیں۔ نیزیہ بھی بتائیں کہ کیا میری امی کا حصہ ان کی اولاد کو ملے گا؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  سائلہ کی والدہ کا انتقال سائلہ کی نانی کی زندگی ہی میں ہو گیا تھا، لہذا سائلہ کی والدہ کا سائلہ کی نانی کی وراثت میں شرعی طور پر حصہ نہیں ہے، اور نہ ہی ان کی اولاد کو نانی کی وراثت سے کچھ ملے گا۔نانی کی وفات کے وقت  اس کی جو اولاد زندہ تھی  وہی اس کے شرعاً وارث ہیں، ہاں اگر نانی کے بالغ ورثاء خوشی سے انفرادی یا اجتماعی طور پر کچھ دیں گے تو ثواب ملے گا۔

باقی  مرحومہ (نانی)  کے تمام ورثاءکی تفصیل  ( یعنی: نانی کی زندگی میں جس بیٹے کا انتقال ہو ہےوہ شادی شدہ تھا؟ یا غیر شادی شدہ؟ اگر شادی شدہ تھا تو بیوہ  اور اولاد ہے یا نہیں؟ ہے تو کتنے ہیں ؟)  لکھ  کر تقسیم کا طریقہ کار معلوم کر سکتے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و شروطه ثلاثة: موت مورث حقيقةً أو حكمًا كمفقود أو تقديرًا كجنين فيه غرة، ووجود وارثه عند موته حيًّا حقيقةً أو تقديرًا كالحمل، والعلم بجهل إرثه". 

(كتاب الفرائض، ج: ۶، صفحہ: ۷۵۶، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101226

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں